فلسطین کے حامی طلباءکا امریکی ہائی اسکول پر اظہارِ خیال کو سنسر کرنے کا الزام
واشنگٹن،25اپریل(ہ س)۔ واشنگٹن، ڈی سی کے جیکسن ریڈ ہائی سکول کے کچھ طلباءنے بدھ کے روز ایک مقدمہ دائ
فلسطینی طلبہ


واشنگٹن،25اپریل(ہ س)۔

واشنگٹن، ڈی سی کے جیکسن ریڈ ہائی سکول کے کچھ طلباءنے بدھ کے روز ایک مقدمہ دائر کیا جس میں الزام لگایا گیا کہ پبلک ہائی سکول کے منتظمین نے فلسطینیوں کے حامی پروگراموں پر پابندی لگا کر انہیں سنسر کیا۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ منتظمین نے ہائی سکول کے ایک سٹوڈنٹ کلب عرب سٹوڈنٹ یونین کی سرگرمیوں کو محدود کرکے ان سے بلیک سٹوڈنٹ یونین اور ایشین سٹوڈنٹ یونین جیسے دوسرے گروپوں سے مختلف سلوک کیا۔

’گذشتہ چار مہینوں سے یہ [عرب سٹوڈنٹ یونین] اور اس کے اراکین ہائی سکول میں اظہارِ خیال کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں - مثلاً دستاویزی فلم دکھانا، پوسٹر لگانا، لٹریچر تقسیم کرنا، ثقافتی پروگرام پیش کرنا - لیکن سکول انتظامیہ کی طرف سے انہیں ہر موڑ پر روکا گیا۔ مقدمے میں کہا گیا۔سکول نے تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

یہ مقدمہ امریکن سول لبرٹیز یونین آف ڈی سی نے کولمبیا ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیا۔ یہ شکایت جس کی واشنگٹن پوسٹ نے پہلے رپورٹ دی تھی، اس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ سکول سے کہا جائے کہ وہ طلباءکو سات جون سے پہلے اپنی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی اجازت دے جو سینیئر طلباءکے لیے تعلیمی سال کا آخری دن ہے۔مقدمہ میں مزید کہا گیا، ان کی تقریر کو دبا دیا گیا ہے کیونکہ سکول نہیں چاہتا کہ ان کا نقط? نظر سنا جائے جو غزہ میں جاری جنگ اور فلسطینی عوام پر اس کے اثرات سے متعلق ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے اہم ترین اتحادی امریکہ کے طول و عرض میں شدید گفتگو اور جنگ مخالف مظاہرے ہوئے ہیں۔ایڈووکیسی گروپوں نے ریاست ہائے متحدہ میں یہودیوں، عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف نفرت اور تعصب میں اضافہ نوٹ کیا۔ ایسے خطرناک واقعات میں اکتوبر میں الینوائے میں ایک 6 سالہ فلسطینی نڑاد امریکی بچے کو چھرا گھونپنا، نومبر میں ورمونٹ میں تین فلسطینی نڑاد طلبائ کو گولیاں مارنا اور فروری میں ٹیکساس میں ایک فلسطینی امریکی شخص کو چھرا گھونپنا شامل ہیں۔غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی انتقامی کارروائی میں غزہ میں 34,000 سے زیادہ افراد ہلاک اور اس کی تقریباً تمام آبادی بے گھر ہو گئی ہے اور یہ جنگ بڑے پیمانے پر بھوک اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں کی جانب سے نسل کشی کے الزامات کا باعث بنی ہے۔

ہندوستھان سماچار


 rajesh pande