رفح پر اسرائیلی حملہ خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے: عالمی ادارہ صحت کا انتباہ
جنیوا،04مئی (ہ س)۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی کے ش
ڈبلیو ایچ او


جنیوا،04مئی (ہ س)۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی غزہ کی پٹی کے شہر رفح پر اسرائیلی فوجی حملہ خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جلد از جلد جنگ بندی کی جائے۔ ڈائریکٹر جنرل ٹیڈرس گیبرییسوس نے ” ایکس“ پر کہا کہ عالمی ادارہ صحت کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ رفح میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے اور پہلے سے تباہ ہوئے نظامِ صحت کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔اسرائیلی فوج رفح شہر پر بمباری جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حماس کے آخری بریگیڈ کو ختم کرنے کے لیے یہاں زمینی حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یورپی ممالک، اقوام متحدہ اور اسرائیل کے اہم اتحادی امریکہ نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ وہ شہر پر زمینی حملے کا خیال ترک کر دیں۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور کے ترجمان جینز لایرکے نے جمعہ کو جنیوا میں کہا کہ انسانی نقصانات کے علاوہ یہ حملہ پوری غزہ کی پٹی میں انسانی بنیادوں پر کی جانے والی کارروائیوں کے لیے ایک زبردست دھچکا ثابت ہو گا۔ رفح کراسنگ ہی انسانی بنیادوں پر کارروائیوں کا مرکز ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ رفح میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن خون کی ہولی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس علاقے میں 1.2 ملین سے زیادہ لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے جن میں سے بہت سے لوگ دوسری جگہ منتقل نہیں ہو سکتے۔ نقل مکانی کی ایک نئی لہر بھیڑ بھاڑ کو بڑھا دے گی اور خوراک، پانی، صحت اور صفائی کی خدمات تک رسائی کو کم کر دے گی۔ اس کے نتیجے میں بیماریوں کے پھیلاو¿ میں اضافہ، بھوک میں اضافہ ہوگا اور مزید جانیں ضائع ہوجائیں گی۔جہاں تک صحت کے نظام کا تعلق ہے اس وقت بنیادی صحت کی دیکھ بھال کے مراکز میں سے صرف 30 فیصد اور غزہ کے 36 ہسپتالوں میں سے صرف 33 فیصد کام کر رہے ہیںے۔ یہ فعال سہولیات بھی جزوی طور پر کام کر رہی ہیں۔ بار بار ہونے والے حملوں کی وجہ سے ان رہے سہے مراکز صحت میں بھی اہم طبی سامان کا فقدان ہے۔ روشنی اور ایندھن کی کمی کے ساتھ ساتھ طبی عملے کی بھی شدید قلت ہے۔

ہنگامی تیاری کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر تنظیم اور اس کے شراکت دار صحت کی خدمات کو تیزی سے بحال کرنے اور اسے دوبارہ فعال کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے متعدد ذرائع پر انحصار کیا جارہا۔ مثال کے طور پر خدمات کے دائرہ کار کو بڑھانے اور سپلائیز کی پہلے سے تیاری کرنے پر کام جاری ہے لیکن پہلے سے ہی خستہ حال صحت کے نظام کے تناظر میں رفح میں کسی آپریشن سے انفیکشن اور اموات میں نمایاں اور تیزی سے اضافہ ہوگا۔رفح میں اس وقت تین جزوی طور پر کام کرنے والے ہسپتال ہیں۔ یہ النجار ہسپتال، الھلال الاماراتی ہسپتال اور الکویت ہسپتال ہیں۔ اس وقت جب لڑائی ان تین ہسپتالوں کے قریب پہنچ شدید ہوجائے گی تو مریضوں، عملے اور ایمبولینسوں کے لیے ان تک پہنچنے کی کوشش کرنا غیر محفوظ ہو جائے گا۔ یہ ہسپتال بھی جلد ہی کام کرنا چھوڑ دیں گے اور سروس فراہم کرنے سے قاصر ہوجائیں گے۔ مشرقی خان یونس میں واقع غزہ یورپی ہسپتال اس وقت شدید بیمار مریضوں کے لیے ایک ترتیری ریفرل ہسپتال کے طور پر کام کر رہا ہے۔ مگراس کو بھی شدید خطرہ لاحق ہے کیونکہ رفح میں دراندازی اسے مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے اور پھر ناقابل رسائی ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس طرح جنوب میں صرف چھ فیلڈ ہسپتال اور وسطی علاقے میں الاقصیٰ ہسپتال باقی رہ جائے گا جو ریفرل ہسپتال ہوگا۔ہنگامی تیاری کی جاری کوششوں کے ایک حصے کے طور پرتنظیم، اس کے شراکت داروں اور ہسپتال کے عملے نے ناصر میڈیکل کمپلیکس کی بحالی کا پہلا مرحلہ مکمل کیا ہے۔ ہسپتالوں پر بوجھ کو کم کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت اور اس کے شراکت دار خان یونس، وسطی علاقے اور شمالی غزہ میں بنیادی صحت کے مراکز اور اضافی طبی مراکز قائم کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ رفح کے علاقے المواصی میں ایک نئے فیلڈ ہسپتال کے قیام کے لیے کام جاری ہے۔

دیر البلح میں ڈبلیو ایچ او کا ایک بڑا گودام قائم کیا گیا تھا اور رفح میں تنظیم کے گوداموں سے بڑی مقدار میں طبی سامان اس میں منتقل کیا گیا ہے۔ اس خدشہ پر کہ رفح پر حملے کے دوران اس کے گودام ناقابل رسائی ہوجائیں گے تو ضرورت پڑنے پر خان یونس، وسطی علاقے اور شمالی غزہ میں رسد کی تیزی سے منتقلی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔اس سلسلے میں ہنگامی منصوبوں اور کوششوں کے باوجود عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ فوجی مداخلت کی صورت میں بڑی تعداد میں اموات اور بیماریاں متوقع ہیں۔ عالمی ادارہ صحت فوری اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کرتا اور غزہ اور اس کے آس پاس فوری انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

ہندوستھان سماچار


 rajesh pande