آسام شہریت معاملہ :سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کا فیصلہ آسام کے مظلوموں اورانصاف کی جیت:مولانا مشتاق عنفر
صدرجمعیةعلماءمولانا ارشدمدنی کی رہنمائی میں بارہ سال تک جمعیةعلماءآسام نے سپریم کورٹ میں اس اہم مقدمہ کی پیروی نئی دہلی، 18اکتوبر(ہ س)۔ مولانا مشتاق عنفرصدرجمعیةعلماءآسام نے کہا کہ جمعیةعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی سرپرستی اوررہنمائی میں جمع
آسام شہریت معاملہ


صدرجمعیةعلماءمولانا ارشدمدنی کی رہنمائی میں بارہ سال تک جمعیةعلماءآسام نے سپریم کورٹ میں اس اہم مقدمہ کی پیروی

نئی دہلی، 18اکتوبر(ہ س)۔

مولانا مشتاق عنفرصدرجمعیةعلماءآسام نے کہا کہ جمعیةعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی سرپرستی اوررہنمائی میں جمعیةعلماءآسام مکمل بارہ سال تک اس اہم مقدمہ کو سپریم کورٹ میں مضبوطی کے ساتھ لڑتی رہی،کیونکہ یہ ایک حساس مسئلہ تھا اگر فرقہ پرست عناصراپنے مقصدمیں کامیاب ہوجاتے اور دفعہ ۶اے منسوخ ہوجاتی توآسام میں ایک اندازہ کے مطابق لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ لاحق ہوسکتاتھا، اس لئے جمعیةعلماءآسام کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھنا چاہتی تھی، اسی لئے کئی ممتازوکلائ جیسے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل، سینئرایڈوکیٹ سلمان خورشید، سینئر ایڈوکیٹ انداراجے سنگھ اورایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی کی خدمات حاصل کیں، جنہوں نے سپریم کورٹ میں آسام کے لاکھوں مظلوم انسانوں کی مضبوطی کے ساتھ پیروی کی، نتیجہ میں یہ قانونی جدوجہدکامیابی سے ہمکنارہوئی، بادی النظرمیں دیکھیں تو سپریم کورٹ کی آئینی بینچ کا یہ فیصلہ تاریخی اورغیرمعمولی نوعیت کا ہے، اس فیصلہ سے جہاں دفعہ ۶اے کی آئینی حیثیت پر ہمیشہ کے لئے مہرلگ گئی وہیں 25مارچ1971ئ کے کٹ آف تاریخ مقررہونے سے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیاں تباہ ہونے سے بچ گئیں، فیصلہ آنے سے قبل اس اہم دفعہ کو منسوخ کرانے کا خواب دیکھنے والوں اوردوسری کئی فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں کے جو بیانات آرہے تھے اس سے پورے آسام کے مسلمانوں میں شدید خوف اورمایوسی پھیل گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ اب فیصلہ آنے کے بعد پورے آسام میں جشن کا ماحول ہے۔

دوسری طرف ان فرقہ پرست عناصر کو سخت مایوسی بھی ہے کہ لاکھوں مسلمانوں کو آسام بدرکرنے کا خواب سجائے بیٹھے تھے درحقیقت یہ فیصلہ آسام کے مظلوم انسانوں اورانصاف کی جیت ہے، ہم باورکراناچاہتے ہیں کہ صدرمحترم مولانا سیدارشدمدنی کی فعال اورسرگرم قیادت میں جمعیةعلماءہند دہائیوں سے آسام کے غریب اور مظلوم انسانوں کے لئے ہر محاذپر سرگرم ہے، لوگ بھولے نہیں ہوں گے کہ جب گواہاٹی ہائی کورٹ نے پنچائیت سرٹیفکٹ کوشہریت کا ثبوت ماننے سے انکارکردیاتھا تواس وقت کوئی بھی تنظیم اس فیصلہ کے خلاف قانونی جدوجہدکے لئے آگے نہیں آئی حالانکہ اس فیصلہ سے کئی لاکھ ہندوخواتین کی شہریت بھی خطرہ میں تھی اس وقت جمعیةعلماءہند ہی تھی جس نے اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی اس وقت(2017) سپریم کورٹ نے متعددسماعتوں کے بعد گواہاٹی ہائی کورٹ کا فیصلہ ردکرتے ہوئے پنچائیت سرٹیفکیٹ کو بھی شہریت کا ثبوت قراردیا، جمعیةعلماءہند کی نہ صرف قانونی بلکہ فلاحی سرگرمیاں بھی اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ جو کچھ کرتی ہے انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے، جمعیةعلماءہند آگے بھی آسام کے تمام مظلوموں کے لئے اپنی جدوجہد اسی طرح جاری رکھے گی۔واضح ہوکہ صدرجمعیةعلماءآسام مولانا مشتاق عنفرنے بھی اس تاریخی فیصلہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہاکہ یہ فیصلہ آسام کے مظلوم عوام اورانصاف کی جیت ہے اوریہ فیصلہ جمعیةعلماءہندکی جدوجہدمیں ایک سنگ میل ثابت ہوگااوران لوگوں کوبھی راحت ملے گی جوشہریت کی امیدکھوبیٹھے تھے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande