واشنگٹن،یکم ستمبر(ہ س)۔
اسرائیل نے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ کو 2006 میں پارٹی کے ساتھ اپنی جنگ میں تین بار مارنے کی کوشش کی اور ایک فضائی حملہ ناکام ہوا کیونکہ حزب اللہ کا رہنما نشانہ بنانے سے کچھ دیر پہلے ہی وہاں سے چلا گیا تھا۔فنانشل ٹائمز کے مطابق قاتلانہ حملے سے واقف دو افراد کے مطابق دیگر حملے اس کے زیر زمین بنکر کی ٹھوس کمک کو گھسنے میں ناکام رہے۔ 7 اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیلی طیارے حسن نصراللہ کو قتل کرنے کی تیاری کر رہے تھے لیکن بائیڈن انتظامیہ نے دباو¿ ڈال کر آپریشن روک دیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق گزشتہ جمعے کی رات اسرائیلی فوج نے حسن نصراللہ کو جنوبی بیروت میں ایک رہائشی کمپلیکس کے نیچے گہرے بنائے گئے بنکر تک پہنچایا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے 80 تک بم گرائے کہ وہ جاں بحق ہو چکے ہوں۔اسرائیلی فوج اور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پراعتماد کارروائیوں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران سب سے بڑے علاقائی حریفوں میں سے ایک کو مسلسل تباہ کن نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حزب اللہ کے خلاف تقریباً چار دہائیوں کی لڑائی اسرائیل حالات کو تبدیل نہیں کر سکا تھا تاہم اب واقعی اسے بڑی کامیابی ملی ہے۔موجودہ اور سابق عہدیداروں نے کہا کہ جو تبدیلی آئی ہے وہ انٹیلی جنس کی وہ گہرائی اور معیار ہے جس پر اسرائیل پچھلے دو مہینوں میں بھروسہ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اسرائیلی کامیابی کی شروعات 30 جولائی کو حسن نصراللہ کے ایک رہنما فواد شکر کے قتل سے ہوئی۔اسرائیلی عہدیداروں نے 2006 میں عسکریت پسند گروپ کو ایک مہلک دھچکا لگانے یا حتیٰ کہ حسن نصر اللہ سمیت اس کی اعلیٰ قیادت کو ختم کرنے میں ناکامی کے بعد حزب اللہ پر اسرائیلی انٹیلی جنس جمع کرنے کی کوششوں کی ایک وسیع ری ڈائریکشن کو بیان کیا۔ اگلی دو دہائیوں کے دوران اسرائیل کے 8200 ویں جدید انٹیلی جنس یونٹ، ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ، جسے امان کہا جاتا ہے، نے اسرائیل کے شمالی میدان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ملیشیاو¿ں کا نقشہ بنانے کے لیے وسیع پیمانے پر ڈیٹا کو جمع کرنا شروع کیا۔ایک سابق انٹیلی جنس افسر میری ایزن نے بتایا کہ اس کے لیے اسرائیل کے حزب اللہ کو دیکھنے کے انداز میں ایک بنیادی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے حزب اللہ کے بارے میں اپنے وڑن کو مجموعی طور پر وسیع کیا اور اپنے عسکری ونگ سے ہٹ کر اپنے سیاسی عزائم اور ایران کے پاسداران انقلاب کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے روابط کو دیکھا۔حزب اللہ کی طاقت میں اضافہ ہوا تو 2012 میں اس نے بشار الاسد کو اپنی آمریت کے خلاف مسلح بغاوت کو دبانے میں مدد کے لیے شام میں اپنی جنگجو تعینات کیے۔ اس صورت حال نے اسرائیل کو اپنا ذہن بنانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ جو چیز سامنے آئی وہ ایک گہری انٹیلی جنس تصویر تھی کہ حزب اللہ کی کارروائیوں کا انچارج کون تھا، کس کو پروموشن مل رہا تھا، کون بدعنوان تھا۔ حزب اللہ کے جنگجوو¿ں کو شام میں خونریز جنگ کے لیے تربیت دی گئی۔ مسلح گروپ کی افواج طویل عرصے سے جاری لڑائی کو برقرار رکھنے کے لیے تیار ہوئی ہیں۔ حزب اللہ نے ان کی بھرتی کو اسرائیلی جاسوسوں کے ایجنٹوں کی تعیناتی یا ممکنہ منحرف افراد کی تلاش کے لیے بھی زیادہ خطرہ بنا دیا۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی پروگرام ڈائریکٹر رندا سلیم کہتی ہیں کہ شام نے حزب اللہ کی توسیع کا آغاز کیا۔ اس سے ان کے داخلی کنٹرول کا طریقہ کار کمزور ہوا اور بڑے پیمانے پر دراندازی کے دروازے کھل گئے۔ شام میں جنگ نے ڈیٹا کا ایک چشمہ پیدا کردیا جس کا زیادہ تر حصہ عوامی طور پر اسرائیل کے جاسوسوں اور ان کے الگورتھم میں جذب ہونے کے لیے تیار تھا۔’شہداءکے پوسٹرز‘ کی شکل میں مرنے والوں کی یادیں جو حزب اللہ کے ذریعہ باقاعدگی سے استعمال کی جاتی ہیں، بھی ایسا ہی ایک ذریعہ تھا اور یہ معلومات سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں پتہ چل رہا تھا کہ یہ جنگجو کس شہر سے تھا، وہ کس جگہ مارا گیا، اس کا حلقہ کیا تھا، سوشل میڈیا پر جنازے کی خبر پھیلانے والے دوستوں کا بھی پتہ چل رہا تھا۔ بعض اوقات سینئر لیڈروں کو جنازوں میں سامنے آنا ہوتا تھا۔ بیروت میں ایک سابق اعلیٰ سطح کے لبنانی سیاست دان نے کہا کہ اسرائیلی یا امریکی انٹیلی جنس کی طرف سے حزب اللہ میں دراندازی کرنا بشار الاسد کی حمایت کی قیمت تھی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan