سعودی عرب مصنوعی ذہانت کی مہارت اور ترقی میں دنیا کے ٹاپ 20 ممالک میں شامل
ریاض،30جولائی(ہ س)۔عالمی مسابقتی انڈیکس برائے مصنوعی ذہانت کے مطابق سعودی عرب کو دنیا کے ان 20 بہترین ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں سعودی عرب نے اٹلی اور روس جیسے مم
سعودی عرب مصنوعی ذہانت کی مہارت اور ترقی میں دنیا کے ٹاپ 20 ممالک میں شامل


ریاض،30جولائی(ہ س)۔عالمی مسابقتی انڈیکس برائے مصنوعی ذہانت کے مطابق سعودی عرب کو دنیا کے ان 20 بہترین ممالک میں شامل کیا گیا ہے جہاں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مہارت رکھنے والے افراد کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس فہرست میں سعودی عرب نے اٹلی اور روس جیسے ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔مملکت میں عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کے ماہرین کا 0.4 فیصد موجود ہے، جو سعودی عرب کی اس شعبے میں مستحکم حیثیت اور جدت طرازی میں قیادت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔یہ رپورٹ بین الاقوامی مالیاتی فورم (آئی ایف ایف) اور عالمی تحقیقاتی ادارے’ڈیپ نالج گروپ‘ (ڈی کے جی) کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ دونوں ادارے جدید ٹیکنالوجی بالخصوص مصنوعی ذہانت اور صحت عامہ کے میدان میں عالمی سطح پر تحقیق اور ترقی میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔اسی سلسلے میں جامعہ شاہ عبداللہ برائے سائنس و ٹیکنالوجی (کے اے یو ایس ٹی) نے تاریخ رقم کرتے ہوئے دنیا کی 150 اعلیٰ جامعات میں جگہ بنائی ہے، جو مصنوعی ذہانت کے ماہرین تیار کرنے کے میدان میں مشرق وسطیٰ کی سب سے نمایاں درسگاہ بن چکی ہے۔سعودی عرب نے جامعہ کے قیام کے لیے اسٹینفورڈ جیسی ممتاز جامعات کے ساتھ شراکت میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ جامعہ میں مصنوعی ذہانت کا ایک عالمی معیار کا تحقیقی مرکز بھی قائم ہے۔اس کے علاوہ 10,000 پروگرامر جیسے منصوبوں کے تحت سعودی نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت کی جدید مہارتوں سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔بین الاقوامی مالیاتی فورم کے ڈیٹا ماہر چو جیان نے کہا کہ یہ رپورٹ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی مسابقت کی تیسرے سلسلے کی اشاعت ہے۔ ڈیپ نالج گروپ کے شراکت دار دیمتری کامنسکی نے کہا کہ’مصنوعی ذہانت کے ماہرین مستقبل کی معیشتوں کے لیے سب سے قیمتی اثاثہ ہیں‘۔سعودی ویژن 2030 ءکے تحت مصنوعی ذہانت کو قومی اقتصادی تبدیلی کے سات اہم ستونوں میں شامل کیا گیا ہے۔ مملکت کا ہدف ہے کہ 2030ءتک وہ اس شعبے میں دنیا کی ٹاپ 10 ریاستوں میں شامل ہو جائے، جس کے لیے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور 2 لاکھ اعلیٰ تکنیکی ملازمتیں پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔اسی ویژن کے تحت سعودی اتھارٹی برائے ڈیٹا و مصنوعی ذہانت (سدایا) قائم کی گئی، جو قومی حکمت عملی پر عملدرآمد کی نگران ہے۔ مختلف منصوبوں میں فیصلے 30 دن کے اندر کیے جا رہے ہیں تاکہ تیز رفتار ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔مصنوعی ذہانت کے میدان میں سعودی خودمختار سرمایہ کاری فنڈ (PIF) نے بھی 1.5 ارب ڈالر کا خصوصی فنڈ قائم کیا ہے۔ اسی طرح، 500 ارب ڈالر کے میگا منصوبے نیوم میں مصنوعی ذہانت کے لیے بجٹ کا 30 فیصد مختص کیا گیا ہے۔سعودی عرب اس وقت دنیا میں مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے لیے سب سے زیادہ پرکشش پیشکشیں کر رہا ہے، جہاں ماہرین کو سالانہ اوسطاً 4 لاکھ 20 ہزار ڈالر ٹیکس فری تنخواہ دی جا رہی ہے۔ نیوم میں کام کرنے والے قائدین کو سائننگ بونس کے طور پر 5 ملین ڈالر تک کی پیشکش بھی کی جاتی ہے، جبکہ ان کے بچوں کی تعلیم کے مکمل اخراجات بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔سعودیہ نے ثقافتی نرمی اور خصوصی اقامتی پروگراموں کے ذریعے نیوم جیسے علاقوں میں ماہرین کو ایسی زندگی فراہم کی ہے جو مقامی اقدار اور بین الاقوامی طرزِ زندگی کے درمیان ایک متوازن امتزاج رکھتی ہے۔نیوم کا شہر دی لائن دنیا کی پہلی مکمل طور پر مصنوعی ذہانت سے چلنے والی شہری منصوبہ بندی کا نمونہ ہوگا، جہاں ٹرانسپورٹ اور توانائی جیسے تمام نظام اے آئی سے کنٹرول ہوں گے۔ یہاں بایومیٹرک نگرانی اور بڑے پیمانے پر ڈیٹا کے حصول سے حقیقی زندگی میں مصنوعی ذہانت کی ایپلی کیشنز کو نئی جہتیں دی جائیں گی۔بین الاقوامی فورم کے پروفیسر پیٹرک گلاونر کے مطابق، جو ممالک آج مصنوعی ذہانت کے ماہرین میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہ نہ صرف اپنا ڈیجیٹل مستقبل محفوظ بنا رہے ہیں بلکہ عالمی مسابقت میں دہائیوں تک برتری حاصل کریں گے۔انہوں نے کہا، سعودیہ نے مشرق اور مغرب کے درمیان سائنسی و تکنیکی خلا کو پاٹنے میں جو کردار ادا کیا ہے، اس نے اسے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک غیر جانب دار اور بااعتماد خطے کے طور پر نمایاں کر دیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ سعودی عرب کے مضبوط تزویراتی تعلقات اسے عالمی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور باصلاحیت افراد کے لیے ایک منفرد اور محفوظ مرکز بنا رہے ہیں۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande