
لکھنؤ/بلرام پور، 23 دسمبر (ہ س)۔ اتر پردیش کے بلرام پور ضلع کے تلسی پور میں واقع مدرسہ جامعہ انوار العلوم میں بغیر تقرری کے تنخواہ کی ادائیگی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ حال ہی میں مدرسہ جامعہ انوار العلوم، تلسی پور میں فرضی تقرری کے معاملے میں تین ملزمین کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ابھی تک گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے اور اب ایک نیا معاملہ سامنے آگیا ہے۔ مدرسے میں ایک استاد کی پوسٹ خالی ہونے کے باوجود کئی ماہ سے تنخواہیں نکالی جارہی ہیں۔ اس سنسنی خیز معاملے میں مدرسہ کے منیجر اور کلرک کے ساتھ ساتھ ضلع اقلیتی افسر (ڈی ایم او) کا کردار بھی سوالیہ نشان ہے۔
اس معاملے کی تصدیق شکایت کے بعد کی گئی تحقیقات سے ہوئی۔ تلسی پور کے ایک رہائشی عمران کی تحریری شکایت کے بعد، مدرسہ کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی، جس میں تنخواہ کی مسلسل ادائیگی کے باوجود کوئی درست تقرری کے احکامات، انتخاب کے طریقہ کار، یا حاضری کے رجسٹر دستیاب نہیں ہو سکے۔ اس سے سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کا شبہ پیدا ہوا ہے۔
مدرسہ کے قائم مقام پرنسپل اور اساتذہ نے خاموش لہجے میں کہا کہ نہ تو عملے نے اور نہ ہی طلبا نے کبھی اس شخص کو دیکھا۔ اسکول میں ہر کوئی جانتا ہے کہ ایک عہدہ خالی ہے، پھر بھی تنخواہ کس کو اور کس بنیاد پر دی گئی -یہ ایک معمہ بنی ہے۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مدرسہ کے ڈائریکٹر لکھنو¿ نے پورے معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا حکم دیا ہے جس کی ذمہ داری مدرسہ کے رجسٹرار کو سونپی گئی ہے۔ محکمانہ ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دائرے میں مدرسہ انتظامیہ سے لے کر ادائیگیوں کی منظوری میں ملوث افرادتک آسکتے ہیں۔
شکایت کنندہ عمران نے الزام لگایا کہ مدارس میں تقرری کے عمل میں منیجر، کلرک اور سی ایم او کا مشترکہ کردار ہوتا ہے۔ اس لیے اگر بغیر تقرری کے تنخواہیں ادا کی گئی ہیں تو کارروائی صرف مدرسہ کی سطح تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے مدرسہ بورڈ اور اعلیٰ حکام کو خط بھیج کر سی ایم او کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں ضلع اقلیتی افسر یشونت موریہ نے کہا کہ کیس کی رپورٹ ڈائرکٹر کو بھیج دی گئی ہے اور ہدایات کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ ہندوستھان سماچار کے ساتھ بات چیت میں مدرسہ کے ڈائریکٹر انکت اگروال نے واضح کیا کہ تحقیقات غیر جانبدارانہ ہوگی اور جو بھی قصوروار ہوگا ،اسے بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ تحقیقات مدرسہ کے رجسٹرار کو دے دی گئی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ اسی مدرسہ میں حال ہی میں متوفی کوٹہ کے زیر کفالت اساتذہ کی تقرری میں دھوکہ دہی پر ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ ایک کے بعد ایک انکشافات نے مدرسہ کے تعلیمی نظام اور محکمہ اقلیتی بہبود کے کام کاج پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد