
نئی دہلی،06نومبر (ہ س )۔
شعبہ علماء و مساجد ، جماعت اسلامی ہند کے زیر اہتمام آج ’کل ہند پانچ روزہ اجتماع برائے علماء و فارغین مدارس‘(جمعرات تا پیر) کا آغاز جماعت اسلامی ہند کے مرکز میں ہوا۔ اس اجتماع میں ملک کے طول و عرض سے بڑی تعداد میں آئے ہوئے مختلف مکاتب فکر کے علماءکرام و فارغین مدارس نے شرکت کی۔ آج کا پہلا پروگرام نائب امیر جماعت اسلامی مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی کی صدارت میں منعقد ہوا۔
‘ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نیشنل سکریٹری جماعت اسلامی نے اپنے استقبالیہ میں اجتماع کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس اجتماع کا مقصد علماء کرام کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلانا اور نظریاتی و مسلکی اختلافات کو بھلا کر باہم مل جل کر کام کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، ایسے حالات میں مل جل کر کام کرنے میں ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ اجتماع کے مقاصد میں یہ بھی شامل ہے کہ علماء کرام ملک و ملت کے حالات سے واقف ہوں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کرتے رہیں۔“
دارالعلوم (وقف) دیوبند کے استاد مفتی رفاقت حسین قاسمی نے متعلقہ موضوع پر انتہائی پ±رمغز بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ” ایک عالم کے دائرہ عمل کی تحدید و تعین نہیں کی جا سکتی۔ زندگی کے تمام شعبوں میں علماء کا کردار شامل ہونا چاہئے۔ اس دور میں ہمیں اپنی ملت پر بالخصوص نئی نسل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ نئی نسل کے نئے طرح کے سوالات کے جوابات کے لیے خود کو تیار کریں۔ علماء کو علمی و عملی ہر دو طرح سے نمونہ بننا ہوگا“
جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی نے کہا کہ وقت کا مزاج تیزی سے بدل رہا ہے۔ نئی نسل کے سوچنے کا انداز بدل چکا ہے۔ایسے حالات میں علماء، عبادات کے علاوہ عملی زندگی میں بھی نمونہ بنیں اور نئے دور میں جو سوالات پیدا ہو رہے ہیں ، ان کے جوابات کے لیے اپنے مطالعات میں وسعت دے کر خود کو تیار کریں۔“
جمعیت علماء ہند، دہلی کے صدر مولانا عبد الرازق نے کہا کہ علماء کرام کی باتوں کے جو اثرات دلوں پر پڑتے ہیں، اس سے زیادہ اثر ان کے کردار کا پڑتا ہے۔ آج طلباء کتاب کے بجائے موبائل سے مطالعہ کرتے ہیں۔ جبکہ کتابوں کے ذریعے کیے جانے والے مطالعہ میں زیادہ گہرائی و گیرائی ہوتی ہے۔ اس کا خیال علماء کو خاص طور پر رکھنا ہوگا“
مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھپور کے سابق صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ” ہمارے اندر ایک بڑی کمزوری پائی جاتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے کردار اور خود اپنے کردار پر دھیان نہیں دیتے۔ ہم فروعی مسائل میں الجھے رہ جاتے ہیں اور جوبنیادی مسائل ہیں ، وہ پیچھے چھوٹ جاتے ہیں۔ ہمیں اس رویے میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمیں مسلکی اور جزئیاتی اختلافات سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور عملی قدم بڑھانا ہوگا“۔
درس قرآن کے تحت ڈاکٹر رضوان احمد رفیقی اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی نے کہا کہ ”علماء کرام مساجد و مدارس سے جڑے ہوتے ہیں جسے ملت میں مرکزیت حاصل ہے۔ یہاں سے جو دعوت دی جاتی ہے ، وہ اللہ کی دعوت ہوتی ہے اور یہی سب سے بہترین دعوت ہے۔علماء کرام اس کام سے جتنا زیادہ جڑیں گے ،اتنا ہی بہتر نتائج ملیں گے۔ “
اپنے صدارتی کلمات میں مولانا ولی اللہ سعیدی فلاحی صاحب نے کہا کہ ” جماعت اسلامی ہند الگ الگ محاذوں پر دعوت و اصلاح کے علاوہ علماء و فارغین مدارس کے محاذ پر بھی کام کر رہی ہے۔ علماء کی باتوں کا سماج میں اثر ہے، اسی لئے جماعت اسلامی ہند، علماءکی تربیت، اور فرض منصبی کی یاد دہانی کو لازمی سمجھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ علماء کو مسالک و نظریات کے اختلافات کو قطع نظر کرتے ہوئے اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ کیونکہ آزمائشوں کے دور میں اللہ کی رحمت اتحاد کی صورت میں آتی ہے، ہمیں اپنی، ملت اور پورے نوع انسان کی اصلاح کرنی ہے۔ علماء ، صرف ملت کی حد تک نہیں بلکہ غیر مسلموں سے بھی رابطے بڑھانے اور اخلاق و حکمت کے ساتھ ان تک دین کا پیغام پہنچانے کے بارے میں غور کرنا چاہئے“
پروگرام کے آخر میں ناظم اجتماع محمد اسعد فلاحی نے کچھ ضروری ہدایات کے ساتھ نشست کے خاتمے کا اعلان کیا۔قابل ذکر ہے کہ 6 نومبر بروز جمعرات سے شروع ہونے والا یہ پروگرام 10 نومبر بروز پیر جاری رہے گا جس میں ملک کی مائناز و معروف شخصیات علماءکرام کو خطاب کریں گے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais