
علی گڑھ, 3 نومبر (ہ س)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ہندی کے زیر اہتمام آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں قومی سمینار بعنوان ”معاصر ہندی ناول: وقت، سماج اور ثقافت کی مزاحمتی آواز“ سے خطاب کرتے ہوئے کنوینر پروفیسر شمبھو ناتھ تیواری نے کہا کہ ناول اور کہانیاں اپنے دور کے مسائل ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وقت کو سمجھنے کے لیے ماضی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ حال۔سمینار کی ڈائریکٹر اور شعبہ ہندی کی صدر پروفیسر تسنیم سہیل نے تمام مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کہا کہ معاصر ہندی ناول بغاوت نہیں بلکہ شعور کی بیداری میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب تہذیب سے رابطہ کا قوی وسیلہ ہوتا ہے۔ مشہور نقاد اور ادیب پروفیسر روہنی اگروال نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ ہمیں تاریخ کا شعور پیدا کرنا ہوگا اور اسی شعور کی روشنی میں ناول کو دیکھنا ہوگا کیونکہ وقت، سماج اور ثقافت دراصل اقتدار کی ساختیات سے پرورش پاتے ہیں اور اس میں تہہ در تہہ معانی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ معاصریت کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی عناصر کو سمجھنا ضروری ہے۔ جنگ پر مبنی ناولوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ناول جنگ کی ہولناکی کو تو پیش کرتے ہیں مگر اس کے اسباب کا جائزہ نہیں لیتے۔ پروفیسر شردھا سنگھ نے کہا کہ ہندی ناول نگاری کی ابتدا اور خواتین کی کہانی نویسی تقریباً ایک ہی وقت میں وجود میں آئیں۔ آج کی خواتین کی ناولوں میں جدید زندگی کی تمام پیچیدگیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے آپ کا بنٹی، چت کوبرا، زندگی نامہ اور اے لڑکی جیسے ناولوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ معاصر ہندی ناول ماحولیات، فطرت اور سیاست جیسے مختلف موضوعات پر اپنی گہری نگاہ ڈالتا ہے۔پروگرام کی نظامت پروفیسر شمبھو ناتھ تیواری نے کی، جبکہ شکریے کے کلمات پروفیسر محمد عاشق علی نے ادا کیے۔اس موقع پرپروفیسر تسنیم سہیل کی ایک تصنیف کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ سیمینار میں اساتذہ اور طلبہ کی کثیر تعداد موجود تھی۔
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ