بی جے پی کو اپنے اندر خاندانی سیاست سے کوئی اعتراض نہیں ہے :عمر عبداللہ
جموں, 3 نومبر (ہ س)۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کے روز بی جے پی پر دوغلے رویے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کو اپنے اندر خاندانی سیاست سے کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ اسی بنیاد پر مخالف جماعتوں کو نشانہ بناتی ہے۔انہوں نے
Omer


جموں, 3 نومبر (ہ س)۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کے روز بی جے پی پر دوغلے رویے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کو اپنے اندر خاندانی سیاست سے کوئی اعتراض نہیں، لیکن وہ اسی بنیاد پر مخالف جماعتوں کو نشانہ بناتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیشنل کانفرنس سے وابستہ ماہرینِ قانون و آئین اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا جماعت جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت مقدمے میں فریق بنے یا نہیں۔

جموں میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمر عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس بڈگام اور نگروٹہ اسمبلی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لیے پرعزم ہے۔ یہ ضمنی انتخاب 11 نومبر کو منعقد ہوں گے۔

نگروٹہ میں ضمنی انتخاب سابق بی جے پی رکن اسمبلی دیویندر سنگھ رانا کے انتقال کے بعد لازم ہوا، جب کہ بڈگام کی نشست اس وقت خالی ہوئی جب وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے گزشتہ انتخابات میں گاندربل اور بڈگام دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد گاندربل ، اپنے خاندانی حلقے کو برقرار رکھا۔بی جے پی نے نگروٹہ سے رانا کی بیٹی دیویانی رانا اور بڈگام سے آغا سید محسن کو امیدوار بنایا ہے، جبکہ نیشنل کانفرنس نے نگروٹہ سے ضلع ترقیاتی کونسل رکن شمیم بیگم اور بڈگام سے سابق وزیر آغا سید محبوبہ کو نامزد کیا ہے۔

عمر عبداللہ نے کہا کہ ایک نشست ہماری اپنی تھی اور دوسری وہ جہاں ہم پچھلے انتخابات میں ہار گئے تھے۔ ہمیں امید ہے کہ اس بار نگروٹہ میں ہمارا نتیجہ بہتر رہے گا، کیونکہ بی جے پی نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ اسے اپنے اندر خاندانی سیاست سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جب بات دوسری جماعتوں کی آتی ہے تو وہی بی جے پی اس پر اعتراض کرتی ہے۔

سپریم کورٹ میں ریاستی حیثیت کی بحالی کے مقدمے میں نیشنل کانفرنس کے فریق بننے کے امکان پر انہوں نے کہا کہ ہم اس پر غور کر رہے ہیں۔ عدالت جانے سے قبل ہمیں فوائد اور نقصانات دونوں پہلوؤں پر غور کرنا ہے۔ اگر ہمیں محسوس ہوا کہ اس سے فائدہ ہوگا تو ہم عدالت جائیں گے۔ ہمارے آئینی ماہرین اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور انہی کی رائے پر ہمارا فیصلہ منحصر ہوگا۔پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کی طرف سے کشمیری قیدیوں کی واپسی سے متعلق عدالت عالیہ میں دائر عرضی پر تبصرہ کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ چونکہ وہ معاملہ عدالت میں جا چکا ہے، اب سب کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اب اسمبلی میں اس پر بحث نہیں ہو سکتی کیونکہ جب کوئی معاملہ عدالت کے دائرے میں چلا جائے تو اسپیکر اسے زیرِ بحث نہیں لا سکتے۔ محبوبہ مفتی نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، لہٰذا اب سب کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت نے ریزرویشن سے متعلق کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی۔ ہماری نیت ہے کہ ریزرویشن کی شرح کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق رکھا جائے، یعنی 50 فیصد سے زیادہ نہ ہو۔ کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مکمل کر لی ہے، جسے اگلی میٹنگ میں منظوری کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجا جائے گا۔

مرکزی حکومت کی جانب سے پچھلے پانچ برسوں میں جموں و کشمیر میں مزید برادریوں کو ریزرویشن فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد یہ معاملہ ایک بڑا سیاسی موضوع بن گیا ہے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ اپوزیشن نے ریزرویشن کے معاملے پر تب بات شروع کی جب نیشنل کانفرنس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا۔ میری حکومت تو ایک سال قبل بنی، مگر یہ مسئلہ اس سے پہلے سے زیرِ بحث تھا۔

سیلاب سے متعلق پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت نے نقصان کا تخمینہ لگانے کے بعد مرکز کو میمورنڈم بھیج دیا ہے۔سال 2014 کے مقابلے میں اس بار نقصان وادی کے بجائے جموں میں زیادہ ہوا ہے۔ ہم نے تفصیلی رپورٹ بھیج دی ہے اور امید ہے کہ مرکز جلد جموں و کشمیر کے لیے امدادی پیکیج منظور کرے گا۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / محمد اصغر


 rajesh pande