
جموں, 3 نومبر (ہ س)۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پیر کے روز جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں پیش ہو کر عدالت سے اپیل کی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اُن تمام زیرِ سماعت قیدیوں کو واپس جموں و کشمیر منتقل کیا جائے جو اس وقت خطے سے باہر مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
محبوبہ مفتی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ایسے افراد، جنہیں 2019 سے پہلے اور بعد میں محض شبہے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا،وہ برسوں سے جیلوں میں بند ہیں، جبکہ آسا رام اور گرمیت رام رحیم جیسے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو ضمانت یا پیرول پر رہائی مل چکی ہے۔
اپنی عوامی مفاد کی عرضی میں محبوبہ مفتی نے عدالت سے استدعا کی کہ اگر حکومت کے پاس ان قیدیوں کو ریاست سے باہر رکھنے کی کوئی ٹھوس اور تحریری وجوہات نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر جموں و کشمیر کی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ڈی پی صدر نے کہا کہ میں نے یہ عرضی کسی سیاسی مقصد سے نہیں بلکہ انسانی ہمدردی کے تحت اُن سینکڑوں غریب خاندانوں کے لیے دائر کی ہے جو برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر آسا رام اور وہ گرمیت جو خود کو رام رحیم کہتا ہے— جو نہ صرف مجرم بلکہ قاتل بھی ہے ،اسے رہائی مل سکتی ہے تو جموں و کشمیر کے وہ قیدی جن کے خلاف جرم ابھی ثابت نہیں ہوا، انہیں کیوں برسوں تک جیلوں میں رکھا جا رہا ہے؟ کیا عدالتی عمل خود اُن کے لیے سزا بن چکا ہے۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ یہ عرضی اُن لوگوں کے لیے ہے جنہیں 2019 سے پہلے اور بعد میں محض شبہے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اور جو گزشتہ چھ تا سات برسوں سے ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ ہمیں اُن کے حالات کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، اُن کے گھر والے غربت میں مبتلا ہیں، نہ وہ اپنے پیاروں سے مل سکتے ہیں، نہ عدالتوں میں مقدمے لڑ سکتے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ زیادہ تر زیرِ سماعت قیدیوں کا تعلق غریب طبقے سے ہے، جو دور دراز جیلوں میں اپنے رشتہ داروں سے ملاقات یا قانونی چارہ جوئی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ بیویاں، بچے اور بوڑھے والدین پیچھے چھوڑ کر جیلوں میں قید ہیں۔
اُن کے اہلِ خانہ کے پاس نہ سفر کے پیسے ہیں نہ وکیل کی فیس دینے کے وسائل ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ان کی عرضی کا مقصد ان قیدیوں کے لیے انصاف اور انسانی وقار کی بحالی ہے۔ میں نے یہ عوامی عرضی اس یقین کے ساتھ دائر کی ہے کہ عدالت انصاف کا مندر ہے۔ میری امید ہے کہ جن پر ابھی جرم ثابت نہیں ہوا، اُنہیں جموں و کشمیر کی جیلوں میں لایا جائے تاکہ وہ اپنے اہلِ خانہ سے مل سکیں اور اپنے مقدمات کی پیروی کر سکیں۔
انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ اس معاملے کو تکنیکی نہیں بلکہ انسانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے۔ میری درخواست ہے کہ عدالت حکومت کو ہدایت دے کہ ان قیدیوں کو یہاں منتقل کرے، اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، اُن کے اہلِ خانہ کو ہر ملاقات کے موقع پر 20 سے 25 ہزار روپے سفری اخراجات کے طور پر دیے جائیں تاکہ وہ اپنے عزیزوں سے مل سکیں ۔سماعت کے بعد عدالت نے معاملے کی اگلی تاریخ مقرر کر دی۔ محبوبہ مفتی کے مطابق،ہمیں اگلی سماعت کی تاریخ دی گئی ہے۔ جب ہر در انصاف سے بند ہو جائے، تو یہ عدالت ہی آخری امید بن جاتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’’تقریباً 35 سو ایسے قیدی ہیں جو غریب اور بے سہارا ہیں، اسی لیے میں ان کی آواز بننے عدالت آئی ہوں۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / محمد اصغر