مرکزی حکومت علاقائی زبانوں بالخصوص اردو کو بہتر مواقع فراہم کررہی ہے: ڈاکٹر شہناز رحمن
علی گڑھ, 23 نومبر (ہ س)۔ ہندوستان میں آج انگریزی زبان تمام علاقائی زبانوں کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے لیکن یہ خوش آئند ہے کہ مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ان تمام زبانوں کو یکساں مواقع فراہم کردیئے ہیں ان خیالات کا اظہار معروف مصنفہ ڈ
ڈاکٹر شہناز رحمن خطاب کرتے ہوئے


علی گڑھ, 23 نومبر (ہ س)۔ ہندوستان میں آج انگریزی زبان تمام علاقائی زبانوں کے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے لیکن یہ خوش آئند ہے کہ مرکزی حکومت نے نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ ان تمام زبانوں کو یکساں مواقع فراہم کردیئے ہیں ان خیالات کا اظہار معروف مصنفہ ڈاکٹر شہناز رحمن نے کیا وہ آج علی گڑھ اردو کتاب میلے میں منعقد مذاکرہ ”اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے“ سے خطاب کررہی تھیں۔انھوں نے کہا اردو زبان کے لئے بہترین مواقع اب دستیاب ہیں اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ اردو کا مستقبل تابناک ہوگا،انھوں نے کہا کہ ایک عام خیال بن گیا ہے کہ اردو زبان میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں جو بالکل غلط ہے،انھوں نے کہانوجوان نسل مسلسل ادب و فکشن کی طرف متوجہ ہورہی ہے، بس ان کی صحیح رہنمائی اور ان کو مناسب پلیٹ فارم فراہم کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر فہمینہ علی نے یہ کہنا کہ نئی نسل کا اردو کے تئیں رجحان کم ہورہا ہے یہ غلط ہے آج چاہے سوشل میڈیا ہو یا پرانہ کلاسکی ادب نوجوان نسل اسکو پسند کررہی ہے،سوشل میڈیا پر اردو ریلس میں ملین ویوز آرہے ہیں اور یہ صرف اردو والے نہیں بلکہ تمام زبانوں کے طالب علم اردو کو پسند کررہے ہیں۔غورطلب ہے کہ آج کتاب میلے کے دوسرے دن”سماجی روایات رسومات اور محاورات کا زوال:اسباب و امکانات“،”اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے“اور”چلو بات کرکے دیکھتے ہیں“شاعروں سے گفتگو کے عنوان سے تین اہم مذاکرے منعقد ہوئے۔ 'اردو زبان کا مستقبل نئی نسل کے حوالے سے' میں ڈاکٹر شہناز رحمن، ڈاکٹر مہر فاطمہ، صدام حسین مضمر اور ڈاکٹر شفا مریم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر فہمینہ علی نے انجام دیے۔ ڈاکٹر مہر فاطمہ نے اردو زبان کی ترویج میں سوشل میڈیا کا مثبت کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آج کے لکھنے والے اپنی تخلیقات کو بآسانی بڑے پیمانے پر شیئر کر رہے ہیں اور اس کے ذریعے اردو کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق اردو زبان کی فطری کشش نوجوانوں کو اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ دوسرے پروگرام چلو بات کرکے دیکھتے ہیں شاعروں سے گفتگومذاکرے میں اردو ادب کے ممتاز شعرا اور نقاد پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر مہتاب حیدر نقوی اور شکیل جمالی نے شامل ہوئے، جبکہ اس مذاکرے کی موڈریشن ڈاکٹر نوشاد کامران نے کی۔پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ شاعری انسانی جذبات کی نہایت لطیف ترجمانی ہے، جو فرد کے اندرونی احساسات کو معاشرے کے بڑے کینوس پر نقش کرتی ہے۔ پروفیسر شہپر رسول نے مشاعرے کی تہذیبی اور سماجی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں مشاعرے محض شعری محفلیں نہیں ہوتے تھے بلکہ ایک مکمل تہذیبی ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔پروفیسر مہتاب حیدر نقوی نے کہا کہ شاعری الہامی نہیں بلکہ اکتسابی عمل ہے کوئی بھی مصرع آسمان سے نازل نہیں ہوتا. یہ بھی ٹیبل ورک جیسا عمل ہے۔ شکیل جمالی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ شاعری انسان کو اس کی داخلی دنیا سے جوڑنے کا ہنر رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے تیز رفتار دور میں شاعری انسان کو ٹھہر کر سوچنے، محسوس کرنے اور اپنے باطن سے مکالمہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس مذاکرے میں تینوں شاعروں نے اپنے کلام سے سامعین کو بھی محظوظ کیا۔ان مذاکروں سے قبل’سماجی روایات،رسومات اور محاورات کا زوال:اسباب و امکانات‘پر مذاکرہ منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی،پروفیسر ویبھا شرما، ڈاکٹر فوزیہ فریدی اور ڈاکٹر ہما پروین شریک ہوئے۔ اس مذاکرے میں معاشرے میں روایت کی کمزور ہوتی بنیادوں، زبان میں محاوراتی تنزّل اور سماجی اقدار کے بکھرتے ہوئے ڈھانچے پر تفصیلی گفتگو کی گئی۔ شرکائے مذاکرہ نے اپنی گفتگو میں اس امر پر افسوس ظاہر کیا کہ جدیدیت اور تیزی سے بدلتی ہوئی زندگی کے طور و طرز نے ہماری قدیم سماجی روایات اور بہتر رسومات کو حاشیے پر دھکیل دیا ہے، جن کا کبھی ہماری تہذیب میں بنیادی مقام ہوا کرتا تھا وہ روایات جو ماضی میں خاندانوں، میل جول اور باہمی احترام کو مضبوط کرتی تھیں، آج تیزی سے ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ علی گڑھ کتاب میلے میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ کثیر تعداد میں عمائدین شہر نے شرکت کی۔

ہندوستھان سماچار

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande