
علی گڑھ, 19 نومبر (ہ س)علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبہ تاریخ نے فیکلٹی آف آرٹس لاؤنج میں ’جنوبی ایشیا میں عہد طباعت کے دوران متون کے استعمال کے متعدد طریقے‘کے عنوان پر ایک لیکچر کا اہتمام کیا۔ پروگرام کا آغاز چیئرپرسن و کوآرڈینیٹر پروفیسر حسن امام کے خیرمقدمی کلمات سے ہوا۔ تقریب کی کنوینر ڈاکٹر گل رخ خان نے مقررِ خصوصی پروفیسر انندیتا گھوش کا تعارف کرایا۔
پروفیسر گھوش نے اپنے انتہائی معلوماتی لیکچر میں انیسویں صدی کے بنگال میں مطالعے اور متون کے استعمال کے متنوع اور تہہ دار عملی طریقوں کا جائزہ لیا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح طباعت کی بڑھتی ہوئی ثقافت نے زبانی روایت، قصہ گوئی، اجتماعی سماعت اور مخطوطہ خوانی جیسی دیرینہ روایات سے میل جول پیدا کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس دور میں مطالعہ اکثر اجتماعی اور با آواز صورت میں انجام دیا جاتا تھا، اورمتون کی شہرت میں پڑھنے والے اور بیان کرنے والے کا اہم کردار ہوتا تھا۔
انہوں نے ابتدائی قرأت کی سماجی ساخت پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ خواتین، کاریگروں اور دیگر طبقات تک چھپی ہوئی تحریریں زیادہ تر عوامی قرأت اور کفایتی مذہبی کتابچوں کے ذریعے پہنچتی تھیں۔ ان کے مطابق 1860کی دہائی کے بعد مقامی زبانوں کے پریس کی ترقی نے مطبوعہ مواد تک رسائی کو بڑھایا، اگرچہ اس دوران مشنری مطبوعات پر تنقید میں بھی اضافہ ہوا۔ پروفیسر گھوش نے تصویری ثقافت اور بصری مواد کے اس اثر انگیز کردار کو بھی اجاگر کیا جو کم خواندہ طبقے میں عوامی مطبوعات کی مقبولیت کا سبب بنا۔
لیکچر کے بعد صدرِ اجلاس پروفیسر ایس اے ندیم رضاوی نے اپنے خیالات پیش کیے۔ پروگرام کی نظامت ریسرچ اسکالر مس شیریں نے کی، جبکہ آخر میں ریسرچ اسکالر مسٹر حسن نے اظہارِ تشکر کیا۔ پروگرام کے انعقاد میں خصوصاً ڈاکٹر ثناء عزیز، ڈاکٹر لبنیٰ عرفان اور ڈاکٹر طارق احمدکا اہم کردار رہا۔
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ