بہار انتخابات: اویسی سے سمجھوتہ نہیں کرنامہا گٹھ بندھن کومہنگا پڑا
اویسی نے سیمانچل میں پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کیپٹنہ، 15 نومبر (ہ س)۔ بہار میں ایک بار نریندر مودی اور نتیش کمار کی جوڑی سپر ہٹ ہوگئی ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے)کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ہے۔وہیں تیسری طاقت کے طور پر پورا زورلگانے
بہار انتخابات: اویسی سے سمجھوتہ نہیں کرنامہا گٹھ بندھن کومہنگا پڑا


اویسی نے سیمانچل میں پانچ سیٹوں پر کامیابی حاصل کیپٹنہ، 15 نومبر (ہ س)۔ بہار میں ایک بار نریندر مودی اور نتیش کمار کی جوڑی سپر ہٹ ہوگئی ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے)کو بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ہے۔وہیں تیسری طاقت کے طور پر پورا زورلگانے والے پرشانت کشور (پی کے )کا کھاتا بھی نہیں کھلا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار انتخاب میں پی کے سے کم مقبول رہے اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم)5اورمایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) 1 سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی۔ بہار اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے سیمانچل علاقے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اسد الدین اویسی کی پارٹی نے آسانی سے پانچ سیٹیں جیت لیں، جس سے مہا گٹھ بندھن کو کافی نقصان پہنچا۔ اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اور حیدرآباد کے ایم پی اسد الدین اویسی نے کل 25 سیٹوں پر امیدوار کھڑے کیے جن میں سے 23 مسلم تھے۔ اے آئی ایم آئی ایم بنیادی طور پر مسلم اکثریتی سیمانچل علاقے (کشن گنج، ارریہ، پورنیہ اور کٹیہار) میں الیکشن لڑ رہی تھی۔اے آئی ایم آئی ایم کے لیے محمد مرشد عالم نے جوکی ہاٹ سیٹ، محمد توصیف عالم نے بہادر گنج سیٹ، محمد سرور عالم نے کوچادھامن سیٹ، اختر الایمان نے امور سیٹ، اور غلام سرور نے بائسی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔اے آئی ایم آٗی ایم کو کل 930,504 ووٹ (1.85فیصد) ملے، جبکہ آرجے ڈی کو 23فیصد ملے۔جوکیہاٹ اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے دوسری بار نمایاں کامیابی حاصل کرکے سیاسی حلقوں میں سنسنی پیدا کردی۔ مرشد عالم نے تین سابق وزرا کو انتخابی میدان میں شکست دی۔مہاگٹھ بندھن کے امیدوار، سابق وزیر شاہنواز عالم، سابق ایم پی اور جن سوراج کے امیدوار سرفراز عالم اور جے ڈی یو کے سابق وزیر شاہنواز عالم میدان میں تھے، لیکن اویسی فیکٹر نے مسلم ووٹروں کو پولرائز کیا اور سب کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔سیاسی تجزیہ کار کے پی ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ اویسی نے کئی سیمانچل حلقوں میں مضبوط مسلم امیدوار کھڑے کیے، جس کے نتیجے میں سیدھا مقابلہ ہوا۔ اے آئی ایم آئی ایم نے مسلم ووٹوں کے ایک اہم حصے کو اپنی طرف متوجہ کیا، جس کی وجہ سے مہاگٹھ بندھن کے امیدوار کئی سیٹوں پر این ڈی اے کے امیدواروں سے پیچھے رہ گئے۔ مہا گٹھ بندھن کے حکمت عملی یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اے آئی ایم آئی ایم نے سیمانچل میں مضبوط قدم جما لیے ہیں۔ کئی سیٹوں پر اے آئی ایم آئی ایم، آر جے ڈی اور کانگریس کے درمیان سہ رخی یا چار رخی والے مقابلے دیکھنے میں آئے، جس کا براہ راست فائدہ این ڈی اے کو ہوا۔سیاسی مبصر سشیل شکلا کا کہنا ہے کہ آر جے ڈی نے اے آئی ایم آئی ایم کے تمام ممبران اسمبلی کا شکار کیا اور انہیں اپنی زد میں لے لیا، جس سے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ اویسی کی پارٹی نے پانچ سال تک زمین پر سخت محنت کی اور آخر کار اس الیکشن میں اس کا بدلہ لے لیا۔ یہ کارکردگی تیجسوی کی حکمت عملی پر سوال اٹھاتی ہے، جس کے تحت مہا گٹھ بندھن نے اے آئی ایم آئی ایم کو پیچھے چھوڑ دیا۔ جن سوراج کی سرگرمیوں کا فائدہ سیمانچل میں اویسی کے امیدواروں کو بھی ہوا۔2020 کے بہار انتخابات میں اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ انتخابات کے بعد اختر الایمان کو چھوڑ کر سبھی چاروں ایم ایل اے آر جے ڈی میں شامل ہو گئے۔ 2020 کے انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے امور، بہادر گنج،بائیسی، جوکیہاٹ، اور کوچادھامن سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن میں اے آئی ایم آئی ایم کو 1.24 فیصد ووٹ ملے جبکہ آر جے ڈی کو 23.11 فیصد ووٹ ملے۔

قابل ذکر ہے کہ 2025 کے انتخابات سے پہلے اے آئی ایم آئی ایم نے آر جے ڈی کے ساتھ اتحاد بنانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔ اختر الایمان ڈھول اور نگاڑا لے کر رابڑی دیوی کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ اس کے بعد بھی تیجسوی یادو نے اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے چاروں ایم ایل اے کے ٹکٹ بھی منسوخ کر دیئے۔سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کی مضبوط کارکردگی مہا گٹھ بندھن، خاص طور پر راشٹریہ جنتا دل اور کانگریس کے لیے ووٹ کاٹنے والی ثابت ہوئی ہے۔ 2020 میں بھی ایسا ہی ہوا، اس کے باوجود مہا گٹھ بندھن نے اویسی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ یہ حکمت عملی مہاگٹھ بندھن کے لیے بہت مہنگی ثابت ہوئی۔ اے آئی ایم آئی ایم کی یہ کارکردگی مہاگٹھ بندھن کے لیے ایک اہم سبق کے طور پر بھی کام کرتی ہے: اسے اویسی کی پارٹی کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرنے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ہندوستھا ن سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Afzal Hassan


 rajesh pande