
نئی دہلی، 30 اکتوبر (ہ س)۔ دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کے ملزمین عمر خالد، شرجیل امام اور گلفشہ فاطمہ کی ضمانت کی درخواستوں پر دہلی پولیس نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمین نے ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی ملک گیر سازش رچی تھی۔ سپریم کورٹ اس کیس میں عمر خالد اور دیگر ملزمین کی درخواست ضمانت کی سماعت 31 اکتوبر کو کرے گی۔
دہلی پولیس نے کہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے موقع پرجان بوجھ کر مظاہروں کا اہتمام کیا گیا تاکہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کی جا سکے ۔ احتجاج کا مقصد یہ غلط تاثر پیدا کرنا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے ) مسلم مخالف ہے۔
دہلی پولیس نے ملزمین کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یو اے اپی اے ملزمین کے لیے جیل ہی قانون ہے، ضمانت نہیں۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ ملزمین کے خلاف جو ثبوت ہیں، وہ پہلی نظر میں درست ہیں اور الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کی ذمہ داری خود ملزمین کی ہی ہے۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ مقدمے میں تاخیر کے لیے ملزمین بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں۔ ملزمین کی جانب سے مسلسل رکاوٹیں ڈالنے کی وجہ سے دو سال سے الزامات عائد نہیں کیے جا سکے۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ ان مقدمات میں 900 نہیں،بلکہ صرف 155 گواہ ہیں۔
گزشتہ27 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے ضمانت کی درخواستوں کا جواب داخل نہ کرنے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی تھی۔ جسٹس اروند کمار کی سربراہی والی بنچ نے پوچھا کہ جب وقت دیا گیا تھا تو جواب داخل کیوں نہیں کیا گیا۔ عدالت نے 22 ستمبر کو ضمانت کی درخواستوں پر نوٹس جاری کیا تھا۔ تمام ملزمین نے ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کرنے کے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا ہے۔
گزشتہ2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ میں جسٹس نوین چاولہ کی سربراہی والی بنچ نے دہلی فسادات کی سازش رچنے کے معاملے میں عمر خالد، شرجیل امام، اطہر خان، عبدالخالد سیفی، محمد سلیم خان، شفا الرحمان، میران حیدر، گلفشہ فاطمہ اور شاداب احمد کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔فروری 2020 میں دہلی فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد