تمل ناڈو میں لال صندل کے کسانوں کو این بی اے نے 55 لاکھ روپے جاری کیے
نئی دہلی، 28 اکتوبر (ہ س)۔ نیشنل بائیو ڈائیورسٹی اتھارٹی (این بی اے) نے ریاستی حیاتیاتی تنوع بورڈ کے ذریعے تمل ناڈو میں سرخ صندل (پیٹرو کارپس سنٹالینس) کے 18کسانوں/کاشتکاروں کو 55 لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔ یہ کسان تیروولور ضلع کے آٹھ گاوں- کنبھیرن نگ
NBA releases Rs 55 lakh to red sandalwood farmers in Tamil Nadu


نئی دہلی، 28 اکتوبر (ہ س)۔ نیشنل بائیو ڈائیورسٹی اتھارٹی (این بی اے) نے ریاستی حیاتیاتی تنوع بورڈ کے ذریعے تمل ناڈو میں سرخ صندل (پیٹرو کارپس سنٹالینس) کے 18کسانوں/کاشتکاروں کو 55 لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔ یہ کسان تیروولور ضلع کے آٹھ گاوں- کنبھیرن نگر، کوتھور، ویمبیڈو، سیرونیم، گونی پلائم، امامبکم، علیکوجھی اور تھیمابوبولاپورم کے رہائشی ہیں ۔

این بی اے نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ یہ مالی معاونت آندھرا پردیش کے محکمہ جنگلات، کرناٹک کے محکمہ جنگلات اور آندھرا پردیش اسٹیٹ بائیو ڈائیورسٹی بورڈ کو لال صندل کی لکڑی کے تحفظ اور فروغ کے لیے پہلے ہی جاری کیے گئے 48.00 کروڑ روپے کے اے بی ایس تعاون کے علاوہ ہے۔

این بی اے نے سال 2015 میں لال صندل کی لکڑی پر ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی سفارش پر کسانوں کو 55 لاکھ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

کمیٹی نے ”سرخ صندل کے استعمال سے پیدا شدہ حالات کا تحفظ، پائیدار استعمال اور منصفانہ و مساوی فائدے کی تقسیم “ کے عنوان سے ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ کمیٹی کی سفارشات کا ایک اہم نتیجہ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف فارن ٹریڈ (ڈی جی ایف ٹی) کی طرف سے 2019 میں پالیسی میں نرمی دینا تھا، جس سے کاشت شدہ ذرائع سے سرخ صندل کی لکڑی کی برآمد کی اجازت دی گئی۔ یہ زراعت پر مبنی تحفظ اور تجارت کے لیے ایک اہم فروغ ہے۔

سرخ صندل کی لکڑی مشرقی گھاٹوں کی ایک ایسی نسل ہے جو صرف آندھرا پردیش میں پائی جاتی ہے۔ اس کی ماحولیاتی، اقتصادی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ آندھرا پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک، اڈیشہ اور دیگر ریاستوں میں بھی اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ سرخ صندل کی کاشت کو فروغ دینے سے نہ صرف کسانوں کی روزی روٹی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ قانونی طور پر حاصل شدہ اور پائیدار طریقے سے اگائی جانے والی سرخ صندل کی لکڑی کے ذریعے مارکیٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / محمد شہزاد


 rajesh pande