فروغِ اردو کے لیے ماضی پرستانہ رویے کے بجائے مستقبل پسندانہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت: دانشوران
6تا 8 فروری 2026 کو قومی اردو کونسل کی مجوزہ عالمی اردو کانفرنس کے تعلق سے ا یڈوائزری کمیٹی کی میٹنگنئی دہلی،27اکتوبر(ہ س)۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام 6سے 8 فروری 2026کو مجوزہ ورلڈ اردو کانفرنس کے تعلق سے تشکیل کردہ ایڈوائزری کمیٹ
فروغِ اردو کے لیے ماضی پرستانہ رویے کے بجائے مستقبل پسندانہ اپروچ اختیار کرنے کی ضرورت: دانشوران


6تا 8 فروری 2026 کو قومی اردو کونسل کی مجوزہ عالمی اردو کانفرنس کے تعلق سے ا یڈوائزری کمیٹی کی میٹنگنئی دہلی،27اکتوبر(ہ س)۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام 6سے 8 فروری 2026کو مجوزہ ورلڈ اردو کانفرنس کے تعلق سے تشکیل کردہ ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ کا انعقاد انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں عمل میں آیا جس میں کانفرنس کے خد و خال اور غرض و غایت پر غور و خوض کیا گیا۔ میٹنگ کا آغاز کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال کے خیرمقدمی کلمات سے ہوا،جبکہ ڈاکٹر کلیم اللہ(ریسرچ آفیسر) نے میٹنگ کے ایجنڈے پر گفتگو کی۔ڈاکٹر شمس اقبال نے میٹنگ کے شرکا کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک کثیر لسانی و کثیر ثقافتی ملک ہے جس میں اردو زبان و تہذیب کا اہم مقام ہے جسے ہر سطح پر سرکاری تحفظ اور سرپرستی بھی حاصل ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی اردو کونسل گزشہ بارہ برسوں سے عالمی اردو کانفرنس کا اہتمام کرتی آرہی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ آنے والی کانفرنس اپنے موضوع اور تھیم کے اعتبار سے ایسی ہمہ گیر ہو کہ اردو کی تکثیری، شمولیتی اور ہندوستانی شناخت بہت واضح طور پر سامنے آئے، کیونکہ ہم ہندوستانی ثقافت اور ملک بھر کی زبانوں کے ساتھ مستحکم رشتہ قائم کرکے ہی اپنی زبان کا فروغ کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس کانفرنس کا موضوع’کثیر لسانی ہندوستان میں اردو زبان و تہذیب‘ رکھا گیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس کانفرنس میں اردو اور دوسری ہندوستانی و عالمی زبانوں کے مابین اثر و تاثیر اور لین دین کی روایت پر بہت منظم گفتگو ہوگی جس سے ہم آگے کا روڈ میپ تیار کر سکیں گے۔نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کے ڈائرکٹر جناب یوراج ملک نے کہا کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اردو ایک شیریں زبان ہے اور ثروت مند تاریخ کی حامل ہے مگر آج کے دور میں اسے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ہمیں اردو کے خوب صورت لٹریچر سے غیر اردو داں طبقے کو متعارف کروانے کے لیے مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ شائع کرنا چاہیے،اسی طرح ہندوستان کی دوسری ایسی زبانوں کے ماہرین کو بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا جائے جن کا اردو سے گہرا تعلق ہے۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر عین الحسن نے کہا کہ اس کانفرنس میں اردو کے ساتھ فارسی، عربی، ہندی اوردِگر زبانوں کے دانشوران کو بھی مدعو کیا جائے کیونکہ اردو ایسی زبان ہے جس نے عربی و فارسی کے ساتھ تمام ہندوستانی زبانوں کے اثرات قبول کیے ہیں اور ان پر اثربھی ڈالا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی فاونڈیشن کے صدر ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد نے کہا کہ اردو پیدایشی اعتبار سے ایک شمولیتی زبان ہے،لہذا ہمیں اس حوالے سے پھیلائے گئے اسٹیریو ٹائپ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ کونسل کی مجوزہ کانفرنس اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اہم ہے البتہ یہ کوشش کرنی ہوگی کہ کانفرنس کے مقالات ماضی پرستانہ ہونے کے بجائے حال اور مستقبل پسندی پر مبنی ہوں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سرکار کی طرف سے اردو زبان کے فروغ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، بس ہمیں اپنے فرائض کی انجام دہی میں ایمان داری سے کام لینا ہوگا۔ مولاآزاد چیئر’مانو‘ کے پروفیسر امتیاز حسنین نے کہا کہ اس کانفرنس میں ہندوستان کی شیڈولڈ زبانوں کے ساتھ علاقائی و قبائلی ہندوستانی زبانوں سے اردو کے رشتے بھی زیر بحث آنے چاہئیں، تبھی ہم کانفرنس کے اہداف تک پہنچ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق یونیورسٹی،کرنول کے سابق وائس چانسلر پروفیسر مظفر علی شہ میری نے اردو میں مختلف عالمی و قومی زبانوں کے تراجم کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس میں اس حوالے سے خصوصی سیشن ہونا چاہیے تاکہ اب تک دنیا بھر کی زبانوں سے اردو میں کیے گئے تراجم کی جھلک اور ان زبانوں سے اردو کا رشتہ آشکار ہوسکے۔سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیر کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق لون نے کہاکہ اردو کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسے نئی نسل اور Gen Zمیں منتقل کریں،ساتھ ہی اس زبان کو مستقبل کی علمی ضرورتوں کے مطابق بنانا ہوگا تبھی اس کی افادیت قائم رہ سکے گی۔دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر مشتاق عالم قادری نے کہا کہ اس کانفرنس میں ایسے موضوعات و نکات زیر بحث آنے چاہئیں جن کی روشنی میں ہم اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں کے مابین روابط کو جان اور سمجھ سکیں۔پروفیسر قطب الدین (جواہر لال نہرویونیورسٹی) نے خصوصاً عرب دنیا میں اردو کی مقبولیت و شہرت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس وقت متعدد عرب ممالک کی یونیورسٹیز میں اردو کے شعبے قائم ہیں۔ اس مجوزہ کانفرنس میں اردو کے قومی و عالمی زبانوں سے رشتوں کو ہائی لائٹ کرنے کے ساتھ اس کا ایک خاص ہدف اردو کو گھر گھر پہنچانے کا ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر شمس اقبال کے اظہارِ تشکر کے ساتھ میٹنگ کا اختتام عمل میں آیا۔ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande