سنگھ کا کام خالصتاً سچی محبت اور معاشرتی ذمہ داری پر
مبنی ہے – سرسنگھ چالک جی
تین روزہ لیکچر سیریز ’سنگھ کا صد سالہ سفر - نئے افق‘
کا دوسرا دن
نئی دہلی، 27 اگست(ہ س)۔
چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت نے کہا کہ سماج اور زندگی میں توازن ہی دھرم ہے، جو کسی
بھی طرح کی انتہا پسندی سے بچاتا ہے۔ بھارت کی روایت اسے مدھیم مارگ( اعتدال
کاراستہ) کہتی ہے اور یہی آج کی دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا
کے سامنے مثال بننے کے لیے سماجی تبدیلی کی شروعات گھر سے کرنی ہو گی۔ اس کے لیے
سنگھ نے پنچ پریورتن (پانچ تبدیلیاں)تجویز کی ہیں - جو خاندانی روشن خیالی، سماجی
ہم آہنگی، ماحولیاتی تحفظ، خود شناسی (سودیسی) اور شہری فرائض کی ادائیگی ہیں۔ آتم
نربھر بھارت کے لیے سودیسی کو ترجیح دیں اور بھارت کی بین الاقوامی تجارت صرف
رضاکارانہ طور پر ہونی چاہیے، کسی کے دباؤ
میں نہیں۔
سرسنگھ چالک ڈاکٹر موہن بھاگوت سنگھ کے صد سالہ جشن کے
موقع پر وگیان بھون میں منعقد تین روزہ لیکچر سیریز ’سنگھ کا صد سالہ سفر - نیا افق‘
کے دوسرے دن خطاب کر رہے تھے۔ اس دوران سرکاریہ واہ دتاتریہ ہوسبالے، شمالی خطے کے
پرانت سنگھ چالک پون جندل اور دہلی پرانت سنگھ چالک ڈاکٹر انل اگروال اسٹیج پر
موجود تھے۔
سنگھ کا کام کیسے چلتا ہے
موہن بھاگوت جی نے کہا کہ سنگھ کا کام خالصتاً سچی محبت
اور سماجی ذمہ داری پر مبنی ہے۔ ”سنگھ کاسویم سیوک کسی ذاتی مفاد کی امید نہیں
رکھتا۔ یہاں انسنٹیو نہیں ہیں، بلکہ زیادہ ڈس-انسنٹیو ہیں۔سویم سیوک سماجی کاموں
میں خوشی محسوس کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔“ انہوں نے واضح کیا کہ زندگی کا مقصد
اورنجات کااحساس اسی خدمت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔نیک لوگوں سے دوستی کرنا،برے
لوگوں کو نظر انداز کرنا، کوئی اچھا کام کرتا ہے تو خوشی کا اظہار کرنا، حتیٰ کہ
برے افراد کے ساتھ بھی ہمدردی کرنا- یہی سنگھ کی زندگی کا اصول ہے۔
ہندوتوا کیا ہے
ہندوتوا کی اصل روح پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوتوا
سچائی، محبت اور اپنے پن کا نام ہے۔ ہمارے رشی-منیوں نے ہمیں سکھایا کہ زندگی اپنے
لیے نہیں ہے۔ اسی لئے بھارت کو دنیا میں ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے رہنمائی کا
کردار ادا کرنا ہے۔ یہی سوچ عالمی فلاح کے تصور کوجنم دیتی ہے۔
دنیا کس سمت جا رہی ہے
سرسنگھ چالک نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ دنیا
شدت پسندی، انتشار اور بدامنی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ ساڑے تین سو برسوں میں
صارفیت اور مادیت پرستی کے نقطہ نظر کی وجہ سے انسانی زندگی کی شرافت کم ہوئی ہے۔
انہوں نے گاندھی جی کے بیان کردہ سات سماجی گناہوں”محنت کے بغیر کام، دانائی کے
بغیر خوشی، کردار کے بغیر علم، اخلاق کے بغیر کاروبار، انسانیت کے بغیر سائنس،
قربانی کے بغیر مذہب اور اصولوں کے بغیر سیاست“ کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے
معاشرے میں عدم توازن گہرا ہوتا چلا گیا ہے۔
دھرم کا راستہ اپنانا ہوگا
سرسنگھ چالک جی نے کہا کہ آج دنیا میں تال میل کا فقدان
ہے اور دنیا کو اپنا نظریہ بدلنا ہوگا۔ دنیا کو دھرم کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
”دھرم پوجا-پاٹھ اور رسومات سے بالاتر ہے۔ دھرم ہر قسم کے مذہب سے بالاتر ہے۔ دھرم
ہمیں توازن سکھاتا ہے - ہمیں بھی جینا ہے، سماج کو بھی جینا ہے اور فطرت کو بھی
جینا ہے۔“ دھرم ہی مدھیم مارگ (اعتدال کا راستہ) ہے جو ہمیں انتہا پسندی سے بچاتا
ہے۔ دھرم کا مطلب ہے وقار اور توازن کے ساتھ جینا۔ اس نقطہ نظر سے ہی عالمی امن
قائم ہو سکتا ہے۔
دھرم کی تعریف بیان کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ”دھرم وہ
ہے جو ہمیں متوازن زندگی کی طرف لے جائے، جہاں تنوع کو قبول کیا جاتا ہے اور ہر
ایک کے وجود کا احترام کیا جاتا ہے۔“ انہوں نے زور دیا کہ یہی عالمی دھرم ہے اور
ہندو سماج کو متحد ہو کر اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
دنیا کی موجودہ صورتحال اور اس کا حل
عالمی تناظر میں انہوں نے کہا کہ امن، ماحولیات اور
معاشی عدم مساوات جیسے موضوعات پر گفت و شنید ہو رہی ہے، تجاویز بھی پیش کی جا رہی
ہیں لیکن حل بہت دور نظر آتا ہے۔”اس کے لیے ہمیں صداقت کے ساتھ سوچنا ہو گا اور
زندگی میں قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ ہمیں متوازن عقل اور دھرم کا
نقظہ نظر پیدا کرنا ہو گا۔“
بھارت نے نقصان کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا
بھارت کے طرز عمل
پر گفتگو کرتے ہوئے سرسنگھ چالک نے کہاکہ ہم نے اپنے نقصان
کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔جن لوگوں نے ہمیں نقصان
پہنچایا،ا ن کی بھی ہم نے بحران کے وقت مدد کی ہے ۔ دشمنی افراد اور قوموں کی انا
سے جنم لیتی ہے، لیکن بھارت انسے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستانی سماج کو
اپنے طرز عمل سے دنیا میں ایک مثال قائم کرنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ آج سماج کو سنگھ کی ساکھ پر بھروسہ ہے۔
سنگھ جو بھی کہتا ہے، سماج اسے سنتا ہے۔ یہ اعتماد خدمت اور سماجی عقیدت سے حاصل
ہوا ہے۔
مستقبل کی سمت
مستقبل کی سمت کے بارے میں سرسنگھ چالک نے کہا کہ سنگھ
کا مقصد یہ ہے کہ سنگھ کا کام تمام جگہوں، طبقوں اور سطحوں تک پہنچے۔ اس کے ساتھ
ساتھ معاشرے میں اچھے کام کرنے والے
افراد آپس میں جڑیں۔ اس سے سماج
خود سنگھ کی طرح کردار سازی اور حب الوطنی کا کام کرے گا۔ اس کے لیے ہمیں معاشرے
کے کونے کونے تک پہنچنا ہو گا۔ جغرافیائی
نقطہ نظر سے سماج کے تمام مقامات اور تمام طبقات اور سطحوں تک سنگھ کی شاکھا
پہنچانی ہوگی۔نیک لوگوں سے ہم رابطہ کریں
گے اور انہیں ایک دوسرے سے رابطہ بھی کرائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سنگھ کا ماننا ہے کہ ہمیں سماج میں خیر
سگالی لانی ہوگی اور ہمیں سماج کے اوپینین
میکرس سے باقاعدگی سے ملناہوگا۔ ان کے ذریعے ایک سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا۔
وہ اپنے سماج کے لئے کام کریں، اس میں ہندو سماج کو
حصہ ہونے کا احساس پیدا ہواور وہ
جغرافیائی حالات سے متعلق چیلنجوں کا خودحل تلاش کریں۔کمزور طبقات کے لیے
کام کریں۔سنگھ ایسا کرکے سماج کی فطرت میں
تبدیلی لانا چاہتا ہے۔
موہن بھاگوت جی نے کہا کہ باہر سے جارحیت کے سبب مذہبی خیالات
بھارت میں آئے۔ کسی وجہ سے کچھ لوگوں نے انہیں قبول کر لیا۔ وہ لوگ
یہیں کے ہیں لیکن غیر ملکی نظریے کی وجہ سے جو دوریاں پیدا ہوئیں ان کو ختم کرنے
کی ضرورت ہے۔ہمیں دوسروں کے درد کو سمجھنا ہو گا۔ ایک ملک، ایک سماج
اور ایک قوم کا حصہ ہونے کے ناطے ،تنوع کے باوجود ، مشترکہ آباؤ اجداد اور
مشترکہ ثقافتی ورثے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، یہ مثبتیت اور ہم آہنگی کے لیے ضروری
ہے۔ اس میں بھی ہم سمجھ بوجھ کر ایک ایک
قدم آگے بڑھانے کی بات کر رہے ہیں ۔
معاشی ترقی کی نئی راہیں
معاشی وژن پر انہوں نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے تجربات کیے
گئے ہیں لیکن اب ملکی سطح پر اقتصادی ماڈل
بنانا ہو گا۔ ہمیں ایک ایسا ترقیاتی ماڈل پیش کرناہوگا جس میں خود انحصاری، سودیسی
اور ماحولیات کے درمیان توازن ہو۔ تاکہ وہ دنیا کے لیے ایک مثال بنے۔
پڑوسی ممالک کے ساتھ رشتوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ
ندیاں، پہاڑ اور لوگ ایک جیسے ہیں، نقشے پر صرف لکیریں کھینچی گئی ہیں،
وراثت میں ملے اقدار سے سب کی ترقی ہو ،
اس کے لئے انہیں جوڑنا ہوگا۔ مذاہب اور فرقے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن تہذیب میں
کوئی فرق نہیں ہے۔
پنچ پریورتن–اپنے گھر سےشروعات
انہوں نے کہا کہ دنیا میں تبدیلی لانے سے پہلے سماجی
تبدیلی کا آغاز اپنے گھر سے کرنا ہوگا۔ اس کے لیے سنگھ نے پنچ پریورتن(پانچ تبدیلیا) بتائے ہیں۔یہ ہیں
خاندانی روشن خیالی، سماجی ہم آہنگی، ماحولیاتی تحفظ، خود شناسی اور شہری فرائض کی ادائگی ۔ انہوں نے مثال دی کہ تہواروں پر روایتی
ملبوسات پہنیں، اپنی مادری زبان میں دستخط کریں اور مقامی مصنوعات کو احترام کے ساتھ خریدیں۔
انہوں نے کہا کہ ہنستے ہنستے ہمارے آباء و اجداد پھانسی
پر چڑھ گئے ،لیکن آج ضرورت ہے کہ ہم
24 گھنٹے ملک کے لیےجئیں۔ہر حال میں
آئین اور اصولوں پر عمل کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی اشتعال انگیزی کی صورت حال پیدا ہو تو نہ ٹائر جلائیں،نہ ہاتھ سے پتھر پھینکیں، شرپسند
عناصر ایسی حرکتوں سے فائدہ اٹھا کر ہمیں توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، ہمیں کبھی بھی
اشتعال میں آکر غیر قانونی کام نہیں کرنا چاہیے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی ملک
اور معاشرے کو سامنے رکھ کر اپنا کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ
بھارت کو خود انحصاری کی طرف ٹھوس قدم
بڑھانے ہوں گے اور اس کے لیے سودیسی کو ترجیح دینا ہوگی۔ بین الاقوامی
تجارت صرف رضاکارانہ طور پر ہونا چاہیے،
دباؤ میں نہیں۔
آخر میں، سرسنگھ چالک جی نے کہا کہ سنگھ کریڈٹ بک
میں نہیں آنا چاہتا۔ سنگھ چاہتا ہے
کہ بھارت ایسی چھلانگ لگائے کہ وہ
کایاپلٹ تو ہو ہی پوری دنیا میں خوشی اور امن قائم ہوجائے۔‘
ہندوستان سماچار / عطاءاللہ