اگر ہمیں اس ملک میں باعزت زندگی چاہیے تو قربانی دینی ہوگی : مولانا محمود اسعد مدنی
آزادی کی آواز ،ہندستان کے ورثے کا جشن کے عنوان سے عظیم الشان اجلاس میں صدر جمعیة علماءہند نے مسلمانوں کو تعلیم، تنظیم اور تجارت پر زور دینے کی تلقین کی او رکہا کہ اچھے کردار سے نفرت کو مٹائیں۔نئی دہلی مدراس، 10 اگست(ہ س)۔جمعیة علماءہند کے صدر مولانا
اگر ہمیں اس ملک میں باعزت زندگی چاہیے تو قربانی دینی ہوگی : مولانا محمود اسعد مدنی


آزادی کی آواز ،ہندستان کے ورثے کا جشن کے عنوان سے عظیم الشان اجلاس میں صدر جمعیة علماءہند نے مسلمانوں کو تعلیم، تنظیم اور تجارت پر زور دینے کی تلقین کی او رکہا کہ اچھے کردار سے نفرت کو مٹائیں۔نئی دہلی مدراس، 10 اگست(ہ س)۔جمعیة علماءہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے ’آزادی کی آواز، ہندوستان کے ورثے کا جشن‘کے عنوان سے زیتون سگنیچر، نونگمباکم، چنئی میں منعقد اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ آزادی محض اتفاق سے نہیں ملی بلکہ ایک صدی سے زائد کی مسلسل جدوجہد اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں ملی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو قوم اپنی شناخت، تہذیب اور مذہب کے ساتھ زندہ رہنا چاہتی ہے، اسے قربانی دینی ہی پڑتی ہے۔ اگر آج ہم قربانی سے گریز کریں گے تو ا?نے والی نسلوں کو اس سے کہیں بڑی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ واضح ہو کہ اس اہم اجلاس میں جنوبی ہند کے نامور وکلاء، دانشوران اور جمعیةعلماءسے وابستہ کارکنان کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔اجلاس کی نظامت حاجی حسن احمد جنرل سکریٹری جمعیة علما ءتامل ناڈو نے کی جب کہ صدر جمعیة علماءہند کے خطاب کا خلاصہ صدر جمعی?علمائ تامل ناڈو مولانا منصور کاشفی صاحب نے تمل زبان میں پیش کیا۔ اپنے کلیدی خطاب میں صدر جمعیةعلما ءہند مولانا محمود اسعد مدنی نے موجودہ ملکی حالات پر اظہارِ تشویش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ا?ج ملک ایک نئے دوراہے پر ہے جہاں نفرت کو حب الوطنی کا لبادہ پہنایا جا رہا ہے اور ظالموں کو قانون کی زد سے بچایا جا رہا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ہندستان کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ فرقہ واریت کی آگ میں صرف اقلیتیں نہیں جل رہیں بلکہ ملک کا وجود جھلس رہا ہے۔ جس زمین پر بھائی چارہ ختم ہو جائے، وہاں ترقی کا بیج نہیں اگتا۔ جس ملک میں اقلیتوں کو انصاف نہ ملے، اس کی دنیا میں عزت نہیں رہتی۔ تاہم انھوں نے مشورہ دیا کہ ہمیں نفرت کے مقابلہ کردار، خدمت اور حکمت سے کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے، اور ہم ہی اسے سنواریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے آئینی حقوق موجود ہیں، لیکن ان کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ عموماً یہ ذمہ داری پارلیمنٹ یا عدلیہ پوری کرتی ہے۔ بدقسمتی سے آج نہ پارلیمنٹ اور نہ انتظامیہ سے یہ توقع کی جا سکتی ہے۔ امید کی واحد کرن عدلیہ اور قانون کے شعبے میں ہیں، اگرچہ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ سب سے زیادہ کوتاہی اسی نظام سے ہوئی ہے۔ پھر بھی ہمیں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔

تعلیم، تنظیم اور تجارت کامیابی کی بنیاد

مولانا مدنی نے کہا کہ کامیابی کے لیے تعلیم، تنظیم اور تجارت بنیادی ستون ہیں۔ انہوں نے جنوبی ہند کے مسلمانوں کو شمالی ہند کے مقابلے میں تعلیم، تنظیم اور تجارت میں ا?گے قرار دیا لیکن کہا کہ ابھی بھی بہت کام باقی ہے، خصوصاً بچیوں کی تعلیم اور تربیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ دینی اور عصری تعلیم کو کم از کم ابتدائی سطح تک یکجا کیا جانا چاہیے تاکہ طلبہ قرآن بھی پڑھ اور سمجھ سکیں اور عصری مضامین میں بھی مضبوط بنیاد حاصل کریں۔

دعوت اور ہماری ذمہ داری

انھوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں اس سرزمین پر پیدا کیا، یہ ہمارا انتخاب نہیں بلکہ اس کی حکمت ہے۔ یہاں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کمیونٹی کو تعلیم یافتہ، بااختیار اور مضبوط بنائیں اور دین اسلام کا اعلی کردار کا نمونہ بن کر لوگوں کے دلوں کو جیتیں۔نبی کریم ? نے سب سے پہلے اپنے کردار سے دل جیتے۔ ہمیں بھی دعوتی مزاج اپنانا ہے، عداوتی نہیں۔ ہمارا ہتھیار سچائی، دیانت، رحم دلی اور عدل ہے۔ یاد رکھیں! اصل دعوت وہ ہے جو دل تک پہنچے، صرف کانوں تک نہیں۔حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی? نے فرمایا کہ اسلام کی حفاظت کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے اپنے کردار میں سمولیا جائے۔

وقف بورڈز کی اصلاح اور خودمختاری

مولانا مدنی نے وقف کی حفاظت کے لیے ایس جی پی سی طرز پر خودمختار ادارہ بنانے کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ موجودہ حالات میں نئے اوقاف کے بجائے پرائیویٹ ٹرسٹ بنانے زیادہ محفوظ ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ جمعی? علمائ ہند گزشتہ پینتیس سالوں سے یہ مطالبہ کرتی ا?رہی ہے۔ ا?ج کے حالات میں میرا عملی مشورہ یہ ہے کہ نئے اوقاف کے بجائے اپنے پرائیویٹ ٹرسٹ بنائیں، کیونکہ سرکاری قبضے کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔ اس کی کئی زندہ مثالیں ہیں۔

ڈرگز کا پھیلاو¿سنگین خطرہ

انھوں نے ڈرگز کے بڑھتے ہوئے پھیلاو¿ کو سنگین سماجی خطرہ قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف شہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ قصبوں تک پہنچ چکا ہے۔ کیمیکل ڈرگز کے بڑھتے استعمال پر فوری سروے اور والدین کی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں لگایا جا سکے۔ اگر ہم بچوں کو مثبت سرگرمیوں میں انگیج نہیں کریں گے تو وہ خود بخود غلط راستوں پر چلے جائیں گے۔ یہ کام والدین ہی کر سکتے ہیں، لیکن انہیں اس کی ٹریننگ اور ا?گاہی دینے کی ذمہ داری تنظیموں کو لینی ہوگی۔ شادی سے پہلے، شادی کے بعد اور بچوں کے ٹین ایج تک ہر مرحلے پر والدین کی رہنمائی ضروری ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہاگر غزہ کے حالات پر ہماری رات کی نیند نہیں ٹوٹتی تو ہمیں اپنے ایمان کا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اگر ہم عملی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا اور جذباتی یکجہتی کا اظہار تو ضرور کریں۔

صدر جمعیة علماءہند کے علاوہ ایڈوکیٹ عاصم شہزاد نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 ا?ئینِ ہند کی روشنی میں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اقلیتوں کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا۔ رفیق حاجیار، چیئرمین حرمین ٹرسٹ نے عصرِ حاضر میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے دینی اقدار کے ساتھ عصری و مرکزی دھارے کی تعلیم میں سرمایہ کاری کی اہمیت اجاگر کی۔ٹی رفیق احمد، چیئرمین ٹی اے ڈبلیو گروپ آف کمپنیز، نے تعلیم کی اہمیت پر خطاب کیا، جبکہ مکہ رفیق احمد، چیئرمین فریدا گروپ آف کمپنیز، نے اتحاد اور آئینی سیکولرازم کے موضوع پر بات کرتے ہوئے بین المذاہب ہم آہنگی کو ملکی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ مدراس ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس کے این باشا نے اقلیتی حقوق کے تحفظ میں عدلیہ کا کردار پر خطاب کرتے ہوئے تاریخی فیصلوں اور آئین کی پاسداری میں عدلیہ کے کردار کو اجاگر کیا۔جمعیت کا وژن اور مستقبل کے منصوبوں پریزنٹیشن دی گئی، جس میں تعلیمی ترقی، قانونی وکالت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے منصوبے شامل تھے۔ سامعین کی آراءاور تاثرات کے بعد حسن احمد، جنرل سکریٹری جمعیت علماءتمل ناڈو، نے شکریہ ادا کیا۔ دیگر اہم شرکاءمیں امیر شریعت مولانا عبدالمجید انجینئر رضوان ، ایڈوکیٹ شاہ صاحب ، انجینئر رضوان ، حاجی رفیق ، اشرف ، مولانا محمد عمر بنگلور شامل ہیں۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande