ایم پی اسمبلی میں چار بل پیش، ضمنی بجٹ پر بحث کے دوران حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان گرما گرم بحث
بھوپال، 30 جولائی (ہ س)۔ مدھیہ پردیش اسمبلی کے مانسون اجلاس کے تیسرے دن بدھ کو ایوان میں چار بل پیش کیے گئے۔ اعلیٰ تعلیم وزیر اندر سنگھ پرمار نے ایک بل اور وزیر خزانہ جگدیش دیوڈا نے تین بل پیش کئے۔ اس کے علاوہ سپلیمنٹری بجٹ پر ایوان میں بحث ہوئی۔ اس دوران حکمراں اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان گرما گرم بحث دیکھنے کو ملی۔
ضمنی بجٹ پر بحث کرتے ہوئے بی جے پی رکن اسمبلی ارچنا چٹنیس نے کہا کہ سال میں ایک بار تمام ڈویژنوں کے افسران کو بلایا جانا چاہئے اور اس پر بحث ہونی چاہئے۔ اس سے سپلیمنٹری بجٹ کے ساتھ ریاستی بجٹ کے اخراجات کی صورتحال واضح ہو جائے گی۔ اس دوران کانگریس رکن اسمبلی راجندر کمار سنگھ نے کہا کہ یشپال سنگھ حکومت کی خوب پیروی کرتے تھے لیکن وزیر نہیں بن سکے، اب رکن اسمبلی ارچنا کر رہی ہیں، اس پر رکن اسمبلی چٹنیس نے کہا کہ وہ رکن اسمبلی بن کر خوش ہیں، وہ وزیر نہیں بننا چاہتیں۔
کانگریس رکن اسمبلی لکھن گھنگھوریا نے کہا کہ حکومت 4 لاکھ کروڑ سے زیادہ کی مقروض ہے۔ اس کے باوجود سپلیمنٹری بجٹ لایا جا رہا ہے۔ بجٹ بار بار آرہا ہے اور اخراجات بھی بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے پودے لگانے پر ہونے والے اخراجات پر بھی سوالات اٹھائے۔ جبل پور کی سڑکوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بارش میں 56 کروڑ کی سڑک بہہ گئی ہے۔ جبل پور کے گیان گنگا گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے گھنگھوریا نے کہا کہ یہ کارروائی دکھاوے کے طور پر کی جاتی ہے۔ بڑے گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ صرف خوشنودی حاصل کرنے کی خواہش میں اہلکار اپنی مرضی سے یہ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے شہری ترقی وزیر کیلاش وجے ورگیہ کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ 40 دنوں میں 40 لاکھ روپے کی سڑک اکھڑ گئی ہے۔ پہلے جب سڑکیں بنتی تھیں تو کم از کم ایک بارش میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا۔ اب 40 دنوں میں سڑکیں اکھڑ رہی ہیں۔
رکن اسمبلی اومکار سنگھ مارکم نے کہا کہ مزدور مزدوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ آوٹ سورسنگ کے ذریعے استحصال کیا جا رہا ہے۔ آشا کارکنان دن رات کام کرتی ہیں اور جب وہ پیسے مانگتی ہیں تو انہیں وقت پر نہیں دیا جاتا۔ اگر آوٹ سورسنگ اور کنٹریکٹ ورکرز کام نہیں کریں گے تو وزارت اور دیگر محکموں میں کام مکمل نہیں ہوگا۔ صحت کے شعبے میں عمارتوں، علاج معالجے کی سہولیات، پینے کے صاف پانی کی مناسب سہولتیں فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اراکین اسمبلی کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ حکمراں پارٹی کے ممبران اسمبلی کو 15 کروڑ روپے مل رہے ہیں اور اپوزیشن ممبران اسمبلی کو ترقی کے لیے رقم نہیں دی جا رہی ہے۔ اگر حکومت اپوزیشن ایم ایل ایز کو 15 کروڑ روپے نہیں دیتی ہے تو ہم جدوجہد کریں گے اور حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانسفر کے ذریعے 4 کروڑ، 10 کروڑ کی ریکوری ہو رہی ہے۔ رکن اسمبلی مارکم نے کہا کہ ٹرانسفر انڈسٹری کے نام پر نیا فنڈ بنایا گیا ہے۔ افسران اور ملازمین ٹرانسفر انڈسٹری چلانے سے پریشان ہیں۔
اپوزیشن لیڈر امنگ سنگھار نے کہا کہ ہر بار اسمبلی کا اجلاس مختصر کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کے پاس عوام کی بات سننے کا وقت نہیں ہے جبکہ دیگر کاموں پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پاس غیر ملکی دوروں پر جانے کا بجٹ ہے، لیکن عوام کی بات سننے کا نہ بجٹ ہے اور نہ ہی وقت ہے۔ تمام اراکین اسمبلی اپنا علاقہ اور وقت چھوڑ کر آتے ہیں۔ سنگھار نے کہا کہ یہ قرض کا بلیو پرنٹ ہے۔ حکومت نے مارچ 2025 میں 16000 کروڑ کا قرض لیا، اس کے بعد مئی، جون، جولائی میں بھی قرض لیا جا رہا ہے۔ حکومت اس کی برانڈنگ پر روزانہ 1.5 کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔ ہر سال 560 کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں لیکن عام آدمی کی حکومت غذائی قلت کے شکار بچوں کی بات نہیں سننا چاہتی۔
اسمارٹ میٹر پر سوال اٹھاتے ہوئے سنگھار نے کہا کہ اس کی رفتار جیٹ جیسی ہے، 200 کا بل دینے والوں کو 2000 دینا پڑرہا ہے۔سنگھار نے اراکن اسمبلی اور سابق اراکین اسمبلی کی تنخواہ کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ جو تنخواہ ملتی ہے اس پر زندہ رہنا مشکل ہے۔ رکن اسمبلی فنڈ میں بھی اضافہ کیا جائے۔ سنگھار نے کہا کہ شراب کی دکانوں میں ایم آر پی سے زیادہ قیمت پر شراب فروخت ہو رہی ہے۔ کیا اس میں حکومت کا کوئی حصہ ہے کہ ایسی فروخت ہو رہی ہے؟ پیسہ براہ راست سنڈیکیٹ کی جیبوں میں جا رہا ہے۔
ایم ایس ایم ای پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے سنگھار نے کہا کہ بڑی صنعتوں کو 1 روپے میں زمین دی جاتی ہے، لیکن چھوٹی صنعتوں کو 5 لاکھ، 10 لاکھ، 20 لاکھ روپے میں زمین دی جاتی ہے۔ ایسے میں چھوٹی صنعتیں کہاں لگیں گی۔ تمام اسکیمیں کرپشن سے بھری پڑی ہیں۔ اسکیموں میں سوشل آڈٹ بہت ضروری ہے۔ آیوشمان کارڈ کے نظام پر سوال اٹھاتے ہوئے سنگھار نے کہا کہ 131830 کارڈ ہولڈروں نے ریاست سے باہر علاج کرایا۔ یعنی ریاست میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے اس لیے انہیں باہر جانا پڑرہا ہے۔
ہندوستھان سماچار
---------------
ہندوستان سماچار / انظر حسن