نئی دہلی، 28 جولائی (ہ س)۔ بہار میں رائے دہندوں کے خصوصی جامع نظر ثانی (ایس آئی آر) کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر مشورہ دیا کہ وہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے آدھار کارڈ اور ووٹر شناختی کارڈ کو بھی درست دستاویزات کے طور پر قبول کر ے۔ اگر ان دستاویزات میں سے کوئی بھی فرضی پایاجاتا ہے، تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس معاملے پر اگلی سماعت 29 جولائی کو ہوگی۔
سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل گوپال شنکر نارائنن نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ اس مدت کے دوران مسودہ ووٹر لسٹجاری کرنے پر روک لگا دی جائے ۔ سپریم کورٹ نے ابھی ایسا کوئی حکم دینے سے انکار کر دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ کیس کی مکمل سماعت کے بعد ہی اپنا فیصلہ دے گا۔
اس معاملے میں درخواست گزار ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے آدھار اور راشن کارڈ کے دستاویزات کو درست دستاویزات کے طور پر شامل نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی ہے۔ اے ڈی آر نے سپریم کورٹ میں داخل اپنے جوابی حلف نامے میں یہ بات کہی ہے۔
اے ڈی آر نے کہا ہے کہ ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے جن 11 درست دستاویزات کی فہرست الیکشن کمیشن نے دی ہے ، وہ بھی فرضٰ اور جعلی دستاویزات کے ذریعے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اے ڈی آر نے کہا ہے کہ مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ، او بی سی، ایس سی، ایس ٹی سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ کے لیے بھی آدھار کارڈ ضروری ہے۔ ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن کی جانب سے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس ائی آر) کے لیے آدھار کارڈ کو شامل نہ کرنا مضحکہ خیز ہے۔
اے ڈی آر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے خصوصی نظر ثانی کے دوران گنتی فارم کے ساتھ منسلک دستاویزات کی صداقت کی تصدیق کے لیے کوئی خاص طریقہ کار تجویز نہیں کیا ہے۔ الیکٹورل رجسٹریشن آفیسرز (ای آر او) کو دستاویزات کو قبول کرنے کا اتنا اختیار دیا گیا ہے کہ اس کا منفی اثر بہار کی ایک بڑی آبادی کو ووٹر لسٹ سے خارج کرنے کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ای آر او کو تین لاکھ افراد کے گنتی فارموں کو سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ووٹر کی غیر موجودگی میں گنتی کے فارم بھی بھرے جا رہے ہیں۔
اس معاملے میں الیکشن کمیشن نے حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹر شناختی کارڈ کو ووٹر لسٹ میں شامل کرنے کے لیے ایک درست دستاویز کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں داخل اپنے جواب میں کہا ہے کہ آدھار کارڈ اور راشن کارڈ کو بھی درست دستاویز نہیں مانا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ بہار میں خصوصی جامع نظر ثانی کا پروگرام عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 21(3) کے تحت کیا جا رہا ہے اور ووٹر شناختی کارڈ موجودہ ووٹر لسٹ کے مطابق بنایا گیا ہے۔ آدھار کارڈ کے بارے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ یہ شہریت کا ثبوت نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ آدھار ایکٹ کی دفعہ 9 واضح طور پر کہتی ہے کہ یہ شہریت کا دستاویز نہیں ہے۔
10 جولائی کو سپریم کورٹ نے بہار میں ووٹروں کی تصدیق کے عمل پر روک لگانے سے انکار کر دیا۔ جسٹس سدھانشو دھولیا کی سربراہی والی تعطیلاتی بنچ نے کہا تھا کہ خصوصی جامع نظرثانی کا عمل جاری رہے گا۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کو آدھار، ووٹر کارڈ اور راشن کارڈ کو تصدیق شدہ دستاویزات کی فہرست میں شامل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
اس معاملے میں، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، ترنمول کانگریس کے علاوہ، ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ میں عرضیاں داخل کی ہیں۔ درخواست میں بہار میں ایس آئی آر کے لیے الیکشن کمیشن کے جاری کردہ حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اے ڈی آر کی جانب سے ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے عرضی داخل کی ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ حکم صوابدیدی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یہ حکم آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21، 32 اور 326 کے ساتھ ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ حکم ووٹر رجسٹریشن رولز کے رول 21 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا حکم نہ صرف من مانی ہے بلکہ مناسب طریقہ کار کے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ اس سے لاکھوں ووٹرز اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہو سکتے ہیں۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ بہار ایک ایسی ریاست ہے جہاں غربت اور نقل مکانی بہت زیادہ ہے اور ایک بڑی آبادی کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ یا والدین کے ریکارڈ جیسے ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔ بہار میں اس طرح کی آخری ترمیم 2003 میں کی گئی تھی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد