چند ماہ قبل میری ملاقات دہلی میں ایک سینئر یورپی وزیر
سے ہوئی۔ وہ بھارت کے ڈیجیٹل ادائیگی کے انقلاب سے حیران تھیں۔ جس چیز نے انہیں سب سے زیادہ متاثر کیا،
وہ یہ تھا کہ ہندوستان بھر میں لوگ کس طرح موبائل فون کے ذریعے ادائیگی کر رہے ہیں۔ چھوٹے گاؤں سے لے کر بڑے شہروں تک-چائے
فروشوں سے لے کر دکانداروں تک- سبھی باآسانی ڈیجیٹل ادائیگیوں کا استعمال کر رہے
تھے۔
لیکن ان کا ایک سوال تھا: زبان اور جغرافیہ میں اتنے
تنوع کے ساتھ ہندوستان نے یہ پیمانہ کیسے حاصل کیا؟
میں نے انہیں 500 روپے کاکرنسی نوٹ دکھایا ۔ 'پانچ سو روپے' کے
الفاظ 17 زبانوں میں پرنٹ کئے ہوئے ہیں ۔
یہ بھارت کے تنوع کی ایک سادہ لیکن طاقتور علامت ہے اور وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی دور اندیش
قیادت میں اس تنوع کو ٹیکنالوجی کے ذریعے پُر کیا گیا ہے اور یہ ہماری سب سے بڑی
طاقت بن گیا ہے ۔
شمولیت کایہی جذبہ ہماری ٹیکنالوجی سے وابستہ سوچ کی
بنیاد بھی ہے، جو ہمارے وزیرِاعظم کے بنیادی فلسفے کی عکاسی کرتا ہے۔یعنی ٹیکنالوجی
تک رسائی کو ہر فرد کے لیے ممکن بنانا اور اسے سب کے فائدے کے لیے استعمال میں
لانا۔
دکان پر اسپیکر پر ادائیگی کے الرٹ سے لے کر فوری ایس
ایم ایس کی تصدیق تک، سسٹم کو رکاوٹوں سے پاک اور سیدھے سادے انداز میں تیارکیا گیا
ہے۔ بھیم 20 زبانوں میں، جبکہ امنگ13 زبانوں میں کام کرتا ہے- یہ سبھی
شمولیت کے ا سی جذبے کی عکاسی کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے 10 سال کا جشن
منا رہے ہیں، یہ تبدیلی ہمارے لئے ایک قابل فخر مثال ہے۔ ہم ایک طویل سفر طے کر
چکے ہیں، اور ہمارے مواقع بے پناہ ہیں۔ انتودیہ کا خواب - وقار اور مواقع کے ساتھ
آخری فرد تک رسائی - ہماری رہنمائی کرتا رہتا ہے۔
انڈیا اسٹیک
یہ سفر دس برس قبل وزیراعظم مودی کے ذریعہ بیان کردہ
ایک واضح تصور- آبادی کے پیمانے پر ڈیجیٹل بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے جو صرف
چند لوگوں کی نہیں بلکہ سب کی خدمت کرتا ہے، کے ساتھ شروع ہوا تھا ۔ اس کی وجہ سے
اس کی تخلیق ہوئی جسے آج دنیا انڈیا اسٹیک کے نام سے پہچانتی ہے۔
آدھار پر منبی نظام دنیا کا سب سے بڑا بائیو میٹرک
شناختی نظام ہے۔ یہ 1.4 بلین لوگوں کو ایک منفرد ڈیجیٹل شناخت فراہم کرتا ہے۔ ہر
روز، نو کروڑ سے زیادہ آدھار کی توثیق ہوتی ہے، جس سے ضروری خدمات تک رسائی تیز
رفتار اور اعتماد کے ساتھ ممکن ہوتی ہے۔
یو پی آئی-جو ایک گھریلو ساختہ اختراع ہے- نے پورے
بھارت میں مالی لین دین کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا ہے۔ چھوٹے خوانچہ فروشوں سے
لے کر بڑے کاروبار تک، ہر کوئی اسے آسانی سے استعمال کر رہا ہے۔ اب اوسطاً 60 کروڑ
سے زیادہ یوپی آئی لین دین ہوتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈیجیٹل ادائیگیاں
روزمرہ کی زندگی میں کتنی گہرائی کے ساتھ پیوست ہو چکی ہیں۔
ڈیجی لاکر نے حکمرانی اور شہریوں کی رسائی کو مزید
آسان بنایا ہے۔ آپ کے دستاویزات محض ایک کلک کی دوری پر ہیں۔ خواہ وہ ڈرائیونگ
لائسنس ہو، تعلیمی سرٹیفکیٹ، یا دیگر ضروری ریکارڈز ہوں -اب لاکھوں لوگ انہیں
محفوظ طریقے سے اور باآسانی رکھ سکتے ہیں۔
اس میں سے کچھ بھی موبائل فون کے وسیع استعمال کے بغیر
ممکن نہیں تھا۔ آج، تقریباً 90فیصد بھارت موبائل آلات استعمال کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی
کی طاقت کی سہولت کو براہ راست لوگوں کے ہاتھ میں فراہم کرتاہے۔
انڈیا اسٹیک بھی ایک عالمی ماڈل کے طور پر کھڑا ہے۔ جی20 میں،
ہندوستان نے ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر (ڈی پی آئی) ایجنڈا کو پرزور طریقے سے رکھا
اور ایک گلوبل ڈی پی آئی ریپوزٹری کی تجویز پیش کی۔یو پی آئی پہلے ہی 7 ممالک میں
موجود ہے، جسےبہت سے دوسرے ممالک اپنانے کے خواہاں ہیں۔ ہر ہندوستانی کو بااختیار
بنانے کے مشن کے طور پر شروع ہوئی یہ پہل اب دنیا کو متاثر کر رہی ہے۔
جامع ترقی
55 کروڑ سے زیادہ جن دھن اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں اور 44 لاکھ کروڑ روپےڈائریکٹ
بینیفٹ ٹرانسفر کے ذریعے تقسیم کیے گئے ہیں۔ 10 کروڑ سے زائد ایل پی جی کنکشن اور
صحت کے فوائد براہ راست پہنچائے گئے ہیں۔ یہ سب ڈیجیٹل انڈیا کے جن
دھن-آدھار-موبائل (جے اے ایم) کی تثلیث سے ممکن ہوا ہے۔
آج، وارانسی میں کوئی آٹو ڈرائیور یا ممبئی میں ہاکر ،ڈیجیٹل
ادائیگی قبول کر سکتا ہے۔ فلاحی اسکیموں میں رساو میں کمی آئی ہے۔ حکمرانی شفاف
اور حقیقی وقت پر مبنی ہو گئی ہے۔
حکمرانی میں انسان دوستی کاجذبہ
مائی گو اور امنگ جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم شہریوں کو 2,000 سے
زیادہ سرکاری خدمات سے براہ راست جوڑتے ہیں۔ بھارت کے قومی ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارم
ای -سنجیونی نے 38 کروڑ ڈاکٹروں سے مشاورت کی سہولت فراہم کی ہے۔
آیوشمان بھارت ڈیجیٹل مشن (اے بی ڈی
ایم) کا مقصد تمام شہریوں کے لیے ایک منفرد ڈیجیٹل آئی ڈی بنانا ہے ۔ 79 کروڑ
سے زیادہ ہیلتھ آئی ڈی، 6 لاکھ صحت خدمات کے ماہرین اور 60 کروڑ ہیلتھ ریکارڈ اب
مربوط ہیں۔
بہار کے ایک دور افتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والی محترمہ
کانتی دیوی کے پاس -اپنے گھر سے نکلے بغیر- لکھنؤ میں سینکڑوں کلومیٹر دور بیٹھے ایک
ماہرمعالج سے مشورہ کرنے کی سہولت دستیاب
ہے۔ صحت کی دیکھ بھال جیسی ضروری خدمات کو عام شہری کی دہلیز تک پہنچانا-یہ ڈیجیٹل
انڈیا کی طاقت ہے۔
نوجوان اور کسان
دیکشا، سویم اور پی ایم ای -ودیا جیسے ڈیجیٹل تعلیمی پلیٹ فارم اب لاکھوں طلباء
تک ان کی مقامی زبانوں میں پہنچ رہے ہیں۔ اسکل انڈیا ڈیجیٹل ہب (ایس آئیڈی ایچ)
اور فیوچر اسکلز پرائم ہمارے نوجوانوں کومصنوعی ذہانت(اے آئی)، سائبرسیکورٹی اور بلاک چین میں مہارتوں سے آراستہ کر رہے ہیں۔
کسان موسم کی اپڈیٹ، سوائل ہیلتھ کارڈز اور مارکیٹ کی
قیمتوں تک ڈیجیٹل طور پر رسائی حاصل کر رہے ہیں۔ اب 11 کروڑ سے زیادہ کسانوں کو پی
ایم-کسان کے ذریعے براہ راست آمدنی کی امدادی قیمت حاصل ہے، جو بغیر کسی رکاوٹ کے
فراہم کی جاتی ہے۔
یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ ، جب ٹیکنالوجی کے مرکز میں
پیمانے اور شمولیت ہو، تو وہ لوگوں کی زندگیوں میں دیرپا تبدیلی لا سکتی ہے -یہی
انتودیہ کا وژن ہے۔
اعتماد سازی
بھارت کے بڑھتے ہوئے ڈیجیٹائزیشن کے ساتھ، اس کے
سائبرسیکورٹی فریم ورک کو مضبوط کیا گیا ہے۔سی ای آر ٹی-ان، 1930 سائبر کرائم
ہیلپ لائن اور ڈیجیٹل پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023 جیسے ادارے صارف کی رازداری
اور ڈیٹا کی حفاظت کے لیے ہندوستان کے عزم کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی
بناتے ہیں کہ شہری اعتماد اور بھروسے کے ساتھ ڈیجیٹل خدمات کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اس کی ایک مضبوط مثال آپریشن سندور کے دوران دیکھنے
کو ملی۔ ہماری ایجنسیوں نے ہمارے بنیادی ڈھانچے پر متعدد مربوط سائبر حملوں کا کامیابی
کے ساتھ مقابلہ کیا۔
اختراعات اور اسٹارٹ اپس
1.8 لاکھ سے زیادہ اسٹارٹ اپس اور 100 سے زائدیونیکورن کے ساتھ،
بھارت آج دنیا میں تیسرے سب سے بڑے اسٹارٹ اپ ماحولیاتی نظام کا گواہ ہے۔ ان میں
سے بہت سے اسٹارٹ اپ ڈیجیٹل انڈیا کے عوامی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بنیاد پر پروان
چڑھے ہیں۔
افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک
انڈیا اسٹیک ماڈل کو اپنانے کے ساتھ، ہندوستان اب ڈیجیٹل عوامی سامان برآمد کر رہا
ہے۔
ہمارا اے آئی مشن اعلی درجے کی کمپیوٹنگ کو بھی کفایتی بنا رہا ہے۔ اسٹارٹ اپس، محققین اور طلباء کے لیے عالمی قیمت
کے ایک حصے پر 34,000 سے زیادہ جی پی یوز اب دستیاب ہیں اور 6000 مزیدشروع ہونے کے
مرحلے میں ہیںتاکہ
اسٹارٹ اپس، محققین اور طلبہ کو عالمی لاگت کے مقابلے میں نہایت کم قیمت پر یہ
سہولت میسر ہو۔
ٹیلی مواصلات سے سیمی کنڈکٹرزتک
وزیر اعظم مودی کی’’میک ان انڈیا، میک فار انڈیا، میک
فار دی ورلڈ‘‘ پر توجہ نے الیکٹرانکس اور موبائل مینوفیکچرنگ میں تیزی سے اضافہ کیا
ہے۔ ہماری الیکٹرانکس مینوفیکچرنگ 12 لاکھ کروڑ روپےسے تجاوز کر گئی ہے۔ آج ہندوستان
موبائل فون کا خالص برآمد کنندہ بھی ہے۔
اس نمو کو متوازی طور پر ٹیلی کام کے بنیادی ڈھانچے میں
ایک مضبوط توسیع سے مدد ملی ہے۔ کئی برسوں کے بعد،بی ایس این ایل دوبارہ منافع بخش
ہو گیا ہے، جس نے ٹیلی مواصلات کے عوامی
شعبے میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کی ہے۔ ہندوستان نے اپنا دیسی ساختہ ٹیلی کام
اسٹیک بھی تیار کیا ہے۔
آج، 4جی تقریباً پورے ملک کا احاطہ کرتا ہے اور
ہندوستان نے دنیا کی تیز ترین 5جی تنصیب کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضبوط ڈیجیٹل ریڑھ کی
ہڈی ڈیجیٹل انڈیا کے اگلے مرحلے کو تقویت دینے میں مدد کر رہی ہے۔
انڈیا سیمی کنڈکٹر مشن ہندوستانی ساختہ چپ کے وژن کو
حقیقت میں بدل رہا ہے۔ چھ سیمی کنڈکٹر پلانٹس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ ان کے درمیان
اب جلد از جلد پہلی میڈ ان انڈیا چپ متعارف کرانے کے لیے ایک صحت مند مقابلہ ہے۔ یہ
ایسی مسابقت ہے جس کا ہمیں خیرمقدم کرنا چاہیے۔
بھارت میں 1,700 سے زیادہ عالمی قابلیت مراکز ہیں، جس میں تقریباً2 ملین افراد کو روزگار ملتا
ہے۔ لاگت کی بچت کے طور پر شروع ہونے والے بیک آفس اب دنیا کے لیے اختراع، ڈیزائن
اور مصنوعات کی ترقی کا باعث بن رہے ہیں۔
آگے کی راہ
ڈیجیٹل انڈیا پروگرام اپنی 10 ویں سالگرہ منا رہا ہے۔
ایک مضبوط ڈیجیٹل بنیاد رکھ دی گئی ہے، جس پر اب وکست بھارت کی عمارت تعمیر کی جا
رہی ہے۔
ہماری توجہ واضح ہے - آخری میل ڈیجیٹل تقسیم کو ختم
کرنا، ڈیجیٹل خواندگی کو بڑھانا اور سب کے لیے سائبر حفاظت کو یقینی بنانا۔ اس کے
ساتھ ہی بالآخر ٹیکنالوجی کو ہر شہری کی زندگی میں ایک حقیقی ساتھی بنانے کی کوشش
ہے۔
---------------
مضمون نگار مرکزی وزیربرائے ریلوے، الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور اطلاعات و نشریات ہیں۔
ہندوستان سماچار / عبدالواحد