نئی دہلی، 23 جون (ہ س)۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے پیر کو کہا کہ بھارت گزشتہ دہائی میں سائنس اورٹیکنالوجی کے میدان میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کا سہرا سیاسی ماحول کو جاتا ہے جو سائنسی اختراع کو قابل بناتا ہے۔ سائنس کے میدان میں گزشتہ 11 برسوں کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کے مقصد سے نیشنل میڈیا سینٹر میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ گزشتہ 11 برسوں میں ٹیکنالوجی کا میدان ہندوستان کی ترقی کی کہانی کا انجن ثابت ہو رہا ہے۔
بھارت اب نہ صرف سائنس اور اختراع میں عالمی بہترین طریقوں کو اپنا رہا ہے بلکہ دوسرے ممالک کو بھی راستہ دکھا رہا ہے۔ 2014 کے بعد، مودی حکومت نے سائنسدانوں کے لیے تجربات اور اختراعات کرنے کا ماحول بنایا، جس کی وجہ سے ٹیکنالوجی کے منظر نامے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
پرائیویٹ سیکٹر کے لیے خلائی اور جوہری شعبوں کو کھولنے جیسے وزیر اعظم کے فیصلوں کا سہرا دیتے ہوئے ڈاکٹر سنگھ نے کہا کہ ان اصلاحات کا زراعت، تعلیم، دفاع، لینڈ ریکارڈ مینجمنٹ، ڈیزاسٹر کی تیاری اور ای- گورننس سمیت متنوع شعبوں میں کئی گنا اثر ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ٹیلنٹ کی کبھی کمی نہیں تھی۔ صرف پالیسی سپورٹ کی کمی تھی، لیکن اب مودی حکومت میں سائنسدانوں کو اختراعات کی مکمل آزادی ہے۔ اب سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھی جا رہی ہے۔
پرنسپل سائنٹیفک ایڈوائزر (پی ایس اے ) اجے سود نے کہا کہ گزشتہ 11 برسوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی قومی ترقی میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ سائنس کے چار شعبوں نے اپنی پیشکشوں کے ذریعے اس سفر کو واضح طور پر ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ایس اے کا دفتر وزیراعظم، کابینہ اور وزارت کو ثبوت پر مبنی اور سائنسی مشورے فراہم کرنے اور قومی مشنز کی سفارش کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم کسی ایک وزارت سے منسلک نہیں ہیں۔
سود نے کہا کہ 11 ہدف بنائے گئے قومی مشن بشمول نیشنل کوانٹم مشن، نیشنل ون ہیلتھ مشن، ڈیپ اوشین مشن اور گرین ہائیڈروجن مشن، وزیراعظم کی سائنس، ٹیکنالوجی اور انوویشن ایڈوائزری کونسل کے تحت شروع کیے گئے ہیں۔ یہ شناخت شدہ ترجیحی علاقوں پر مبنی تھے اور مربوط قومی اثرات کے لیے متعلقہ محکموں کے ذریعے نافذ کیے گئے تھے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد