کولکاتا، 02 جون (ہ س)۔ باکس آفس پر ایکشن کی چمک اور گلیمر کے درمیان، 'خریف' تازہ ہوا کے حقیقی سانس کے طور پر آرہا ہے۔ یہ فلم نہ تو کسی بڑے اسٹار پر ٹکی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی آئٹم سانگ ہے۔ اس کے مرکز میں کسان اور مزدور ہیں، جو ملک کی اصل ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
جب سینما گھروں میں 'اینیمل' کی گولیاں گونج رہی تھیں اور 'جاٹ' کی گالیوں کا ٹرینڈ چل رہا تھا تو شاید ہی کسی نے سوچا ہو گا کہ کسان کے خوابوں اور مزدور کی تھکاوٹ کو سینما کی زبان دی جا سکتی ہے، لیکن 'خریف' نے یہ خطرہ سختی سے مول لیا ہے۔
حقیقت پر مبنی فلم
'خریف' ایک حقیقت پسندانہ فلم ہے جو ہندوستانی زرعی زندگی کی زمینی حقیقت کو اسکرین پر لانے کی ہمت کرتی ہے۔ اسے نہ تو کسی سپر اسٹار کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی کوئی بڑے پیمانے پر تشہیر۔ اس کے پروڈیوسر ترلوک کوٹھاری، پرکاش چودھری اور دھیریندر ڈمری نے یہ خطرہ مول لیا ہے کہ سنیما صرف تفریح نہیں ہو سکتا بلکہ جذبات بھی ہو سکتا ہے۔ فلم کے مصنف وکرم سنگھ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ 'خریف' کوئی پروموشن نہیں بلکہ احتجاج ہے - کسانوں کے دکھوں پر چھائی ہوئی خاموشی کے خلاف۔ ان کے الفاظ میں، جب کسان ایک اعدادوشمار بن جاتا ہے، تو ایک فلم کی ضرورت ہوتی ہے جو کہے - یہ بھی ہندوستان ہے!
گاؤں کی زندگی پر مبنی اسکرین پلے
منوج کمار، منوج پانڈے، یامنی مشرا، پرکاش چودھری اور سمرت سونی جیسے اداکاروں نے نہ صرف گاؤں میں رہ کر اور کسانوں کی زندگی کا تجربہ کرکے اپنے کرداروں کو موثر بنایا ہے۔ راجستھان کی شدید گرمی میں بھی، جہاں درجہ حرارت 40 سے 45 ڈگری کے درمیان تھا، پوری ٹیم نے بلا روک ٹوک کام کیا۔ راجستھان، گجرات، دہلی اور ممبئی میں شوٹ ہونے والی اس فلم کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر سین کو کسانوں کی زندگیوں سے ہم آہنگ کرکے فلمایا گیا ہے۔ فلم کے کئی حصوں میں کھیتوں میں ننگے پاؤں بھاگتے بچے، تھکے ہارے مزدوروں کے کندھے اور خواتین کی آنکھوں میں تیرتے خواب نظر آتے ہیں، جو مل کر ایک سینما کی نظم بناتے ہیں۔
کسانوں کی تحریک کے پس منظر میں پیدا ہونے والی آواز
جب کسانوں کی تحریک کی گونج پارلیمنٹ سے لے کر سوشل میڈیا تک پورے ملک میں سنائی دے رہی تھی، تب بھی کمرشل سینما اس معاملے پر خاموش رہا۔ 'خریف' اس خاموشی کو توڑتا ہے اور ایک ٹھوس سینما دستاویز بن جاتا ہے۔ یہ فلم ان ان گنت چہروں کی کہانی ہے جو بیج بوتے ہوئے آسمان کی طرف نہیں دیکھ رہے بلکہ اپنے گھر والوں کی بھوک مٹانے کی فکر میں ہیں۔
دیہی ہندوستان کی میٹھی خوشبو کے ساتھ ایک طاقتور کہانی
'خریف' نعرے نہیں لگاتا اور نہ ہی کوئی نظریہ مسلط کرتا ہے۔ یہ مٹی کی خوشبو میں بھیگی ہوئی کہانی ہے جو سامعین کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ فلم کا ہر فریم اس جدوجہد کا گواہ ہے جس سے کسان ہر موسم میں گزرتا ہے۔ آج جب بڑے بجٹ، ستاروں اور فنی خوبیوں کے درمیان سینما اپنی حساسیت کہیں کھو رہا ہے، فلم 'خریف' اس یقین کو بحال کرتی ہے کہ ہندوستانی سنیما میں دل سے لکھی گئی کہانیوں کی اب بھی گنجائش ہے۔
---------------
ہندوستان سماچار / عبدالسلام صدیقی