اورنگ
آباد ، 2 مئی (ہ س)۔ رئیس جامعہ اسلامیہ
اشاعت العلوم اکل کوا اور دارالعلوم دیوبند کی شورٰی کے رکن، امت مسلمہ کی ممتاز
علمی و روحانی شخصیت،مولانا غلام محمد
وستانوی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال کی خبر نے ملت اسلامیہ کو سوگوار
کر دیا ہے۔ وہ طویل عرصے سے دینی و تعلیمی میدان میں سرگرم تھے اور ان کی خدمات کو
بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے سانحۂ ارتحال کو ملت اسلامیہ کے لیے ایک
گہرا صدمہ اور ناقابل تلافی نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ مولانا غلام محمد وستانوی ایک
صاحب تقویٰ بزرگ، عاشقِ رسول اور خدمتِ دین میں ہمیشہ پیش پیش رہنے والی شخصیت
تھے۔
مولانا
وستانوی پچھلےتقریباً ایک سال سے علیل
تھے۔ گزشتہ دنوں طبیعت ناساز ہونے کے بعد ابتدا میں انھیں اورنگ آباد کے مقامی نجی
اسپتال ایشین ہاسپٹل میں داخل کیا گیا تھا، جہاں مولاتا کے فرزند
ڈاکڑ ہیں، اس کے بعد انھیں اورنگ آباد کے ایک دوسرے نجی اسپتال میں داخل کیا گیا
تھا. جہاں انھیں وینٹیلیٹر پر رکھا گیا تھا۔بعدازاں کچھ دن قبل انھیں ان کےگھر اکل کواں منتقل کر دیا گیا تھا۔ جہاںآج وہ 2 بجکر 30 کے قریب خالق حقیقی سے جا ملے۔ انکی نماز جنازہ آج رات اکل
کواں میں اد کی جائے گی۔
مولانا
وستانوی کی پوری زندگی دین کی خدمت، علم کے فروغ، اور امت مسلمہ کی اصلاح کے لیے
وقف رہی۔ ان کا شمار ان علمائے کرام میں ہوتا تھا جنہوں نے جدید تقاضوں کو پیش نظر
رکھتے ہوئے روایتی تعلیمات کو نئے انداز میں پیش کیا۔ ان کی تعلیمی خدمات نہ صرف
مہاراشٹر بلکہ ملک بھر میں پھیل چکی تھیں۔
دینی و
تعلیمی خدمات میں نمایاں مقام رکھنے والے مولانا وستانوی کا انتقال ملت کے لیے ایک
عظیم سانحہ ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کے لیے پوری زندگی کو وقف کر
رکھا تھا۔ ان کی تعلیمی کاوشوں نے مسلمانوں میں شعور اور ترقی کا ایک نیا باب رقم
کیا۔ ان کی خدمات کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے انتقال کی خبر نے
ملک بھر کے دینی و علمی حلقوں کو غمزدہ کر دیا ہے۔
غلام
محمد وستانوی یکم جون 1950ء کو کوساڑی، ضلع سورت، گجرات میں پیدا ہوئے۔ 1952ء یا
1953ء میں ان کا خاندان وستان منتقل ہوا، جس کی طرف نسبت کرتے ہوئے وہ وستانوی
لکھے جاتے ہیں۔ وستانوی نے اپنی ابتدائی تعلیم مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں حاصل
کی، جہاں انھوں نے حفظ قرآن کیا۔
انھوں
نے بعد ازاں مدرسہ شمس العلوم بروڈہ میں تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لیے
1964ء میں دار العلوم فلاح دارین، ترکیسر، گجرات میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے آٹھ
سال تک تعلیم حاصل کی اور 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کے اساتذہ میں
احمد بیمات، عبد اللہ کاپودروی، شیر علی افغانی اور ذو الفقار علی شامل تھے۔
1972ء
کے اواخر میں وستانوی نے مظاہر علوم سہارنپور، اتر پردیش میں داخلہ لیا اور دورۂ
حدیث شریف پڑھ کر 1973ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ انھوں نے بخاری محمد یونس
جونپوری سے پڑھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایم بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔
1970ء
میں دار العلوم فلاح دارین کے زمانۂ طالب علمی کے دوران، انھوں نے محمد زکریا
کاندھلوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اور 1982ء میں شیخ کی وفات تک ان سے استفادہ
کرتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد، سید صدیق احمد باندوی سے رجوع کیا اور ان کے خلیفہ و
مُجاز ہوئے۔ مزید یہ کہ انھیں محمد یونس جونپوری سے بھی اجازتِ بیعت حاصل ہوئی۔
ان کے
انتقال پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی
نے کہا کہ مولانا وستانوی ایک ایسے عالم و مفکر تھے جنہوں نے قدیم و جدید علوم کو
کامیابی کے ساتھ یکجا کر کے ملت کو ایک نیا فکری زاویہ فراہم کیا۔ وہ اخلاص، سادگی
اور مستقل مزاجی کے پیکر تھے، جنہوں نے سیاست و قیادت کی کشمکش سے دور رہتے ہوئے
انفرادی سطح پر ایک مضبوط مشن کے تحت کام جاری رکھا اور ایسے کارہائے نمایاں انجام
دیے جو کئی بڑی تنظیمیں بھی نہ کر سکیں۔
انہوں
نے کہا کہ مولانا غلام محمد وستانوی کی شخصیت علم و عرفان کا خزانہ تھی۔ ان کے
سانحہ ارتحال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنا ناممکن ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان کی
مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے اور ان کے اہل خانہ، شاگردوں اور متعلقین کو صبر
جمیل عطا فرمائے۔
ہندوستھان
سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان