ہندو اور مسلمان کبھی بھائی بھائی نہیں ہو سکتے: درگیش پارولکر کا متنازعہ بیان
۔ وقف قانون کی حمایت وقت کی اہم ضرورت
ہے تاکہ مذہبی جنونیوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ڈومبیولی )ممبئی(، 19 اپریل (ہ س)۔ معروف
مصنف اور لیکچرر درگیش پارولکر نے ایک متنازع بیان میں کہا ہے کہ ہندو اور مسلمان
کبھی بھی بھائی بھائی نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مسلمان مختلف طریقوں
سے ہندوستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، جن میں لو جہاد، حلال جہاد،
آبادی میں اضافہ اور زمینی جہاد جیسے ہتھکنڈے شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی
حکومت کو اس سازش کا علم ہے اور وہ مسلمانوں کی ہر طرف سے ناکہ بندی کے لیے مختلف
اقدامات کر رہی ہے۔
یہ بیان انہوں نے ڈومبیولی کی مشہور پائی
فرینڈس لائبریری کے پنڈلک پائی کی جانب سے وقف بورڈ ایکٹ کو سمجھنا...
کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں دیا۔ اس پروگرام میں معروف عالمی لیکچرر، مصنف،
خطیب اور تاریخ داں ڈاکٹر سچیدانند شیودے اور ہندو جنجاگرتی سمیتی کے ترجمان ستیش
کوچریکر نے بھی شرکت کی۔
پارولکر نے کہا کہ حکومت نے مسلم 'غزوہ
ہند' کے خلاف اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، آرٹیکل 370، 35 اے،
تین طلاق، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) جیسے اقدامات کے ذریعے حکومت مسلمانوں
کے منصوبوں اور رسد کو متاثر کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ ان اقدامات کو
غیر ضروری سمجھتے ہیں لیکن ان کے پیچھے حکومت کی حکمت عملی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پارولکر نے کہا کہ تقسیم کے وقت مسلمانوں نے کہا تھا ہنس کے لیا پاکستان، لڑ
کے لیں گے ہندوستان اور آج بھی ویسی ہی صورت حال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر
ہندو لڑنا نہیں سیکھیں گے تو وہ چھترپتی شیواجی مہاراج کے وارث کہلانے کے لائق
نہیں۔ پارولکر نے اپیل کی کہ نوجوان نسل کو آئین اور قانون سے آگاہ کرنے اور انہیں
بے خوف بنانے کے لیے ورکشاپس منعقد کی جائیں۔
اسی پروگرام میں ڈاکٹر سچیدانند شیودے
نے وقف ترمیمی قانون پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس قانون کے خلاف
سماعت ہوئی لیکن کوئی معطلی نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ میں ایسے
قوانین شامل ہیں جن کا فائدہ مسلمانوں کو ہوتا ہے، جیسے قلعوں پر عبادت گاہیں، جو
محکمہ آثار قدیمہ کے دائرے میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان جانے والے
مسلمانوں کے لیے کوئی قانون نہیں بنایا گیا، جب کہ یہاں کے ہندوؤں کے لیے ایسے
قوانین بنائے گئے، اور اس وقت کی حکومت نے مسلمانوں کو قریب کیا، جس کے نتائج آج
نظر آ رہے ہیں۔
ہندو جنجاگرتی سمیتی کے ترجمان ستیش
کوچریکر نے کہا کہ وقف ترمیمی قانون کے خلاف غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں، جو
ایک طرح کا 'لٹمس ٹیسٹ ' ہیں۔ اس سے یہ
اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کہاں کتنی شدت ہے۔ انہوں نے مرشد آباد میں ایک ہندو خاتون
پر ہونے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں ایسے واقعات میں اضافہ ہو
رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک مضبوط ہندو تنظیم کی ضرورت ہے جو ایسے قوانین کے
خلاف کھل کر سامنے آئے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ جیسے قوانین پر عوامی بحث ضروری
ہے اور حکومت کے اس قانون کی حمایت وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ مذہبی جنونیوں کی
سازشوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔
ہندوستھان سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان