مرشد آباد ڈائری-2: ایک گھر... دو لاشیں... اور سوالوں میں ڈوبامعصوم
اوم پاراشر مرشدآباد، 19 اپریل (ہ س)۔ مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے دھولیان کے جعفرآباد گاو¿ں کے آخر میں دریائے گنگا کے کنارے واقع ایک علاقہ اب خاموشی اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہاں کا ایک ایک گھر، جہاں کبھی ہنسی خوشی کا ماحول ہوتا تھا، آج ٹوٹ
مرشد آباد ڈائری-2: ایک گھر... دو لاشیں... اور سوالوں میں ڈوبامعصوم


اوم پاراشر

مرشدآباد، 19 اپریل (ہ س)۔

مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع کے دھولیان کے جعفرآباد گاو¿ں کے آخر میں دریائے گنگا کے کنارے واقع ایک علاقہ اب خاموشی اور سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہاں کا ایک ایک گھر، جہاں کبھی ہنسی خوشی کا ماحول ہوتا تھا، آج ٹوٹے ہوئے دروازے، بکھری ہوئی چیزیں اور اینٹوں کے ٹکڑے اس خوفناک دوپہر کی گواہی دے رہے ہیں، جب ہزاروں فسادیوں نے اس گھر کو موت کے میدان میں تبدیل کر دیا تھا۔

ہفتہ (12 اپریل) کو ہرگوبند داس اور ان کے بیٹے چندن داس کو ان کے گھر سے گھسیٹ کر باہر لے جایا گیا اور تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کرکے انہیں ہلاک کردیاگیا۔ ایک ہی دن ایک ہی گھر سے دو لاشیں نکالی گئیں... اور پیچھے چیخیں، سسکیاں اور سوال چھوڑ گئے۔

’کیا یہ رقم میرے بیٹے اور شوہر کو واپس لے آئے گی؟‘

گھر کے اندر، ایک کونے میں 65 سالہ پارول داس - چندن کی ماں اور ہرگووند کی بیوی بیٹھی ہیں۔خاموش ٹوٹی ہوئی اور اندر سے خالی۔ ان کے آنسو خشک ہو چکے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی آواز میں وہ کہتی ہیں، ”میں ممتا دیدی کی بنگال کی ماں ہوں… میں پیسے کا کیا کروں گی… کیا پیسہ میرے شوہر اور بیٹے کو واپس لا سکتا ہے؟“ وہ مالی امداد قبول کرنے سے انکاری ہے۔ اس کے الفاظ واضح طور پر آنسوو¿ں کے درد کی عکاسی کرتے ہیں جو صرف ماں اور بیوی ہی محسوس کر سکتی ہیں۔

’جہاں زخم نہیں تھا، بس وہی جگہ بچی تھی...‘ واقعے کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ حملہ منصوبہ بند تھا۔ پہلے پتھراو¿، پھر دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور پھر لاٹھیوں، تلواروں اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کیا۔ ’ہاتھ کاٹے گئے، ٹانگیں کاٹی گئیں، اور پورے جسم پر زخم تھے۔‘ہرگووند داس کی بیٹی روتے ہوئے بتاتی ہے۔ گھر میں لوٹ مار اور سامان تباہ کر دیا گیا۔ اس بربریت کے درمیان، صرف ایک سوال تیر رہا تھا کہ ”کیا اس ملک میں غریب ہونا جرم ہے؟“

بیٹے کی آنکھوں میں صرف آنسو نہیں، آگ بھی ہے۔ صرف 11 سالہ آکاش - چندن داس کا بیٹا - اپنے والد اور دادا کی ششتھی کے دن (جمعرات کو جب ہندوستھان سماچارکی ٹیم گراو¿نڈ رپورٹنگ کے لیے ان کے گھر پہنچی) ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتا ہے، ’باپ اور دادا کا کیا قصور تھا؟ انہیں جس طرح مارا گیا اس کی سزا ملنی چاہیے۔ میں ابھی پڑھ رہا ہوں... وقت آنے پر بتاو¿ں گا کہ میں کیا بنوں گا۔‘ ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں – نہ انتظامیہ اور نہ ہی سیاست کے پاس۔

بہت سے میڈیا والے جھوٹی خبریں چلا رہے ہیں۔ چندن اور ہرگووند کے خاندان کا غصہ صرف حکومت اور حملہ آوروں پر نہیں ہے بلکہ میڈیا کے ایک بڑے حصے پر بھی ہے۔ قومی میڈیا کے کئی صحافی یہاں آئے، ان کے بیانات لیے اور جا کر خبر شائع کی کہ باپ بیٹے میں دشمنی تھی، جس کی وجہ سے یہ قتل ہوا۔ ہزاروں فسادیوں کے ہجوم کی بربریت کا نشانہ بننے والا خاندان میڈیا کے اس رویے سے نہ صرف دکھی ہے بلکہ حیران بھی ہے۔ وہ سمجھ نہیں سکتا کہ کس پر بھروسہ کرے۔

حکومت خاموش ہے، گاو¿ں خوفزدہ ہے۔ واقعے کے بعد علاقے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے تاہم مقامی لوگوں میں خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ گاو¿ں چھوڑ کر اپنے رشتہ داروں کے پاس جا چکے ہیں۔ حکومت نے معاوضے کا اعلان ضرور کیا ہے لیکن متاثرہ خاندان نے اسے قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اب ان کے لیے نہ پیسہ ہے اور نہ ہی سیکورٹی، کیونکہ ان سے سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande