شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام پروفیسر خالد جاوید کی سبک دوشی پر الوداعی تقریب کا انعقاد
نئی دہلی ،16اپریل(ہ س)۔
آج کی صبح شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فضا میں ایک نوع کی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ تمام چہروں پر کسی محبوب شخصیت کے شعبے سے رخصت ہونے کا رنج و ملال نمایاں تھا۔ ایسے جذباتی ماحول میں لفظوں کی جگہ خموشی کی زبان نے لے لی تھی۔ شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ۲۴ برسوں تک غیرمعمولی تدریسی خدمات انجام دینے والے عہدِ حاضر کے ممتاز فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید کی سبک دوشی کے موقع پر شعبے کی جانب سے ایک یادگار اور نہایت ہی جذباتی الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر صدرِ شعبہ نے شعبے کی جانب سے ایک دلکش سیپلنگ سے پروفیسر خالد جاوید کا استقبال کرتے ہوئے ان کی شال پوشی بھی کی۔ نیز ان کی خدمت میں ایک دیدہ زیب مفلر، نفیس میمینٹو، خوب صورت ڈائری اور قلم اور جاذب نظر ٹرالی بطور تحفہ پیش کی۔
صدارتی خطاب میں صدرِ شعبہ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنی دیرینہ رفاقتوں اور خالد جاوید کی علم و دانش سے معمور زندگی پر والہانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خالد جاوید نے جس خوب صورتی سے اپنا تدریسی سفر طے کیا ہے وہ ایک مسرت بخش پہلو ہے۔ نظم و ضبط کی پابندی ان کی ایک نمایاں صفت رہی ہے۔ خالد جاوید کا اسلوب گردش کرتے ہوئے لٹّو کی طرح ہے، جو چھوٹے چھوٹے دائرے بناتے ہوئے ایک بڑے دائرے کی تشکیل کرتا ہے اور یہ عمل بیک وقت مرکز گریز اور مرکز جو قوتوں کے تصادم سے ظہورپذیر ہوتا ہے۔ خالد جاوید کی حیثیت شعبے میں ایک روشن تدریسی باب کی تھی۔ اس حسرت خیز فضا میں مزید محزونی اس وقت بڑھ گئی جب پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ ہم خالد جاوید کی ایک ایک ادا کو مدتوں یاد کریں گے۔ ان کا فن، ان کی فکر، ان کی شخصیت اور ان کی زندگی، یہ سب کچھ ہم آمیز ہو کر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی امتیازی شان کی شناخت بن گیا ہے۔ خالد جاوید کو الوداع کہتے ہوئے پروفیسر احمد محفوظ نے ان سے اپنے دیرینہ تعلقات کو یاد کیا اور کہا کہ مغربی فلسفوں پر وہ غائر نظر بھی رکھتے ہیں اور ادب کو فلسفے سے ہم رشتہ بھی کرتے ہیں۔ پروفیسر ندیم احمد نے یہ امید ظاہر کی کہ وہ مستقبل میں ادب کے مزید بڑے ایوارڈ سے سرفراز ہوں گے اور ہمارے شعبے کا نام مزید تابناک ہوگا۔ اداسی کی اس کیفیت میں ذرا سی شوخی کا رنگ اس وقت پیدا ہو گیا جب پروفیسر عمران احمد عندلیب نے اپنے مخصوص باغ و بہار طرزِ خطاب میں کہا کہ ان کے انعامات ڈھونے کے لیے مال گاڑی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہم جیسوں کی علمی، تحقیقی، تخلیق کوتاہیوں کا کفارہ اکیلے خالد جاوید صاحب ادا کر دیتے ہیں۔ ہمیں ان پر بہت ناز ہے اور ان سے اپنی اس قربت پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ جلسے میں مزید سنجیدگی اس وقت طاری ہو گئی جب خالد جاوید کی رخصتی کے اس لمحے میں پروفیسر سرورالہدیٰ نے کہا کہ خالد جاوید کی گفتگو، ان کے فکری ارتعاشات، ان کا رویہ اور ان کے ردعمل کو میں سرتاپا فکشن کے طور پر دیکھتا ہوں۔ شعبے کے استاد ڈاکٹر شاہ عالم نے خالد جاوید کے ساتھ بیتے خوش گوار لمحات اور واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر خالد مبشر نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے بحیثیت شاگرد خالد جاوید کی معلمانہ عظمتوں پر مبنی ایک مختصر تحریر میں کہا کہ خالد جاوید مختلف علوم و فنون کا سررشتہ ادب سے اس طور پر قائم کرتے ہیں کہ فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہو جاتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر مشیر احمد نے کہا کہ خالد جاوید ہم سب سے خوش خلقی کے ساتھ پیش آتے۔ انھوں نے کبھی کسی قسم کی سیاست سے دلچسپی نہیں لی۔ محبت و شفقت ان کا شیوہ رہا۔ ڈاکٹر سید تنویر حسین نے ابنِ صفی پر کام سے متعلق ان کی اولیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابنِ صفی کا ادبی مقام و مرتبہ متعین کرنے میں پروفیسر خالد جاوید کو اولیت اور امتیاز حاصل ہے۔
جلسے کا آغاز ڈاکٹرشاہنواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر شاداب تبسم، ڈاکٹر حنبل رضا، ڈاکٹر محمد عارف اور ڈاکٹر روبینہ شاہین زبیری کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais