اے ایم یو میں شعبہ سنسکرت کے زیر اہتمام فلسفہ اور شعریات پر قومی سیمینار اختتام پذیر
علی گڑھ, 11 اپریل (ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت میں تین روزہ قومی سیمینار بعنوان ”فلسفہ اور شعریات“ کی اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی، پرو وائس چانسلر پروفیسر محسن خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلاسیکی روایات تعبیر و تشریح کے لیے ہمی
پروفیسر محسن خان خطاب کرتے ہوئے


علی گڑھ, 11 اپریل (ہ س)۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ سنسکرت میں تین روزہ قومی سیمینار بعنوان ”فلسفہ اور شعریات“ کی اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی، پرو وائس چانسلر پروفیسر محسن خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کلاسیکی روایات تعبیر و تشریح کے لیے ہمیشہ کھلی ہوتی ہیں جس کے باعث وہ بعد کے دور میں بھی بامعنیٰ بنی رہتی ہیں۔ محققین اور نووارد اسکالرز کے لیے یہ پہلو نہایت مفید ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اوم ناتھ بیمالی نے ’کاویہ شاستر‘ اور ’درشن شاستر‘ کی متوازی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لفظ اور معنیٰ کے باہمی تعلق کی وضاحت کی۔ انہوں نے کہا کہ لفظ کی طاقت اس کے معنی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ہیم بالا (شعبہ سنسکرت) نے سیمینار کی رپورٹ پیش کی۔ پروفیسر ہمانشو آچاریہ نے اظہارِ تشکر کیا۔

سیمینار کے تیسرے اور آخری دن دو تکنیکی اجلاس منعقد ہوئے جن کی صدارت ڈاکٹر سادھنا کنسل (ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ آرٹس کالج، کوٹہ) اور پروفیسر مسعود علی (چیئرمین، شعبہ لسانیات، اے ایم یو) نے کی۔ پروفیسر ٹی این ستھین (ڈین، فیکلٹی آف آرٹس، اے ایم یو) نے ہندوستانی فلسفہ کے ملیالم شعریات پر اثرات کا جائزہ لیا اور ”منی پراولم“ کی ماہیت اور ”لیلاتلکم“کے فلسفیانہ بنیادوں پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ”لیلاتلکم“ جیسی مخلوط زبان میں لکھی گئی تخلیق بھی ایک حقیقی فلسفیانہ کاوِیہ ہے، نہ کہ سنسکرت کی کمزور شکل۔

شعبہ فلسفہ کے چیئرمین ڈاکٹر عامر ریاض نے تصوف میں محبت کے فلسفے پر امیر خسرو، رومی اور اقبال جیسے شعرا کے حوالے سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر سادھنا کنسل نے اپنے کلیدی خطاب میں فلسفہ میں ”مکتی“ اور محبت کے تعلق پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر مسعود علی بیگ نے اختتامی کلمات ادا کئے اور ڈاکٹر مکیش نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔

اختتامی اجلاس کی صدارت دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اوم ناتھ بیمالی اور اے ایم یو کے شعبہ عربی کے چیئرمین پروفیسر ثناء اللہ نے کی۔ کلیدی مقرر پروفیسر انل پرتاپ (الہ آباد یونیورسٹی) نے لسانیات اور کلاسیکی ہندوستانی فلسفہ کے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے ”نیائے سوتر“ اور ”نوّ-نیائے“ زبان کے کردار کو اجاگر کیا جس میں شاعری کو جذبات اور علم دونوں کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ پروفیسر ثناء اللہ نے عربی اور سنسکرت کے درمیان روابط، قرآن میں سنسکرت الفاظ کی موجودگی اور فارسی، عربی و ہندوستانی ادبیات میں فلسفے کے کردار پر گفتگو کی۔ ڈاکٹر سادھنا کنسل نے قدیم فلسفیوں کے حوالے سے قدیم شعریات اور شاعری کے مقاصد بیان کیے، جبکہ ڈاکٹر اوم ناتھ بیمالی نے فلسفیانہ اور جمالیاتی اظہار کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر گگن پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر صدف فرید اور دیگر اسکالرز موجود رہے۔ ڈاکٹر شگفتہ اس سیشن کی کنوینر تھیں۔

---------------

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande