نئی دہلی،11اپریل(ہ س)۔
پروفیسر مظہر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جامعہ کے پریم چند آرکائیو اینڈ لٹریری سینٹر(جے پی اے ایل سی)میں آٹھ اپریل دوہزار پچیس کو ہندوستان کی اولین پریس فوٹو گرافر ہمائی ویراولا کی تصاویر کی نمائش کا افتتاح کیا۔محترمہ وویراولا نے انیس سو تیس کی دہائی سے انیس سو ستر کی دہائی تک بطور پروفیشنل فوٹوگرافر اپنی خدما ت انجام دی ہیں۔نمائش میں چار دہائیوں کو محیط ان کی انتہائی اہم تصاویر کو رکھا گیاہے۔پروفیسر مظہر آصف نے نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے جس میں مختلف شعبوں اور مراکز کے طلبہ اور اساتذہ شریک تھے کہا کہ محترمہ ویراولا کی زندگی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتاہے اور مختلف علوم کے اسکالروں سے کہا کہ نمائش میں آکر ممتاز پریس فوٹو گرافر کے کام کو دیکھنا چاہیے۔
ہمائی ویراولا گجرات کے نوساری میں ایک مجوسی خانوادے میں انیس سو تیرہ میں پیدا ہوئیں۔ وہ تیرہ برس کی تھیں جب ان کی ملاقات مانک شا سے ہوئی جو بعد میں ان کے خاوند اور قریب ترین ساتھی ہوئے انھوں نے انھیں فوٹوگرافی سے روشناس کرایا۔اس زمانے میں خاتون پیشہ ور فوٹوگرافر کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتاتھا اس لیے ان کی پیشہ ورانہ فوٹوگرافی کے اوائل دور کی تصاویر مانک شا کے نام سے جام جمشید،بومبے کرونیکل اور السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا جیسے رسالوں میں چھپتی تھیں۔ انیس سو بیالیس میں یہ جوڑابرٹش انفارمیشن سروسیز جو بعد میں برٹش ہائی کمیشن ہوگیا تھا اس کے لیے کام کے سلسلے میں دہلی منتقل ہوگیا۔ہمائی ویراولا صرف اس لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل نہیں ہیں کہ وہ مرد سے بھرے پورے پیشے میں تنہا پروفیشنل خاتون ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی فوٹوگرافی کا انداز منفرد اور جداگانہ ہے۔ان کا کیریئر کا اثر اس بات میں بھی دیکھا جاسکتاہے کہ وزیر داخلہ سردار پٹیل نے نئے قائم شدہ پریس انفارمیشن بیورو میں فوٹوگرافروں کے جو اشتہار شائع کیا اس میں ’خواتین اہل‘ ہیں کے دو الفاظ بھی جوڑے۔
دہلی میں اپنی ملازمت کی تین دہائیوں کے دوران انھوں نے انگریزی سرکار کے آخری دنوں,نئی جمہوریہ کی زندگی کیاہم واقعا ت اور عوام کی روزمرہ کی زندگیوں کو اپنے کیمرے کی آنکھوں سے قید کیا۔نمائش میں سب سے پہلے دہلی کی تین مشہور تصاویر ہیں جن میں انڈیا گیٹ کے اوپر سے ویراولا کی لی ہوئی دوسرے یوم جمہوریہ کی پریڈ کی فضائی تصویربھی شامل ہے۔ اس کے بعد نمائش میں سب سے زیادہ جگہ مہاتما گاندھی کی آخری رسومات سے متعلق تصاویر کے لیے وقف ہے۔وہ تصویریں بھی ہیں جن میں گاندھی خان عبد الغفار کے ساتھ تاریخی ملاقات کے لیے ٹہلتے ہوئے ہیں اسی طرح ایک اور تصویر ہے جس میں سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھ ایوان کی طرف جارہے ہیں۔ فوٹوگرافی سے رضاکارانہ سبکدوشی کے بعدویراولا عوام کی یادداشت سے محو ہوگئیں۔انیس سو نوے کی دہائی کے وسط میں دستاویزی فلم ساز اور اے جے کے ماس کمیونی کیشن رسرچ سینٹر،جامعہ ملیہ اسلامیہ میں استاد سبینا گاڑیہوکے خواتین فوٹوگرافروں کی تاریخ پر تحقیق کرتے ہوئے ایک دوسری خاتون فوٹوگرافر کی رہنمائی پر ویراولا تک پہنچیں۔ محترمہ ویراولا پر،وفیسر گاڑی ہوکے کی پندرہ برسوں کی تحقیق جاری تھی جس میں باتصویرسوانح کے ساتھ ساتھ محترمہ ویراولا کی غیر معمولی فوٹوگرافوں کو عام کرنا شامل ہے۔پروفیسر گاڑیہوکے کے ذاتی کلیکشن کی تصاویر اور یادگاروں اور نشانیوں کی مدد سے یہ نمائش تیار کی گئی ہے۔یہ نمائش تیس اپریل دوہزار پچیس تک جاری رہے گی اور اس میں محترمہ ویراولا کی خدمات کو محفوظ رکھے جانے کی قدر کے سلسلے میں ایک تصویری لیکچر طلبہ کی رہنمائی کے لیے ہوگا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ نے متحرک بیداری مہم کے ساتھ منشیات کو ’نہیں‘کہاکیمپس کو نشہ خوری جیسی لعنت سے محفوظ رکھنے کی پرجوش کوشش میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی نشہ مکت ہاسٹل کمیٹی(این ایم ایچ سی) نے نشہ مکت بھارت ابھیان کے اشتراک سے نو اپریل دوہزار پچیس کو منشیات سے پاک متحرک بیداری مہم چلائی۔اس موثر اقدام کا مقصد نشہ خوری کے خطرات کے طلبہ کا آگاہ کرنا ہے اور یونیورسٹی میں صحت اور ذمہ داری کی فضا کو مزید تقویت دیناہے۔ شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ کی موقر قیادت میں نشہ خوری کے خلاف بیداری مہم پروگرام میں پروفیسر نیلو فرافضل،ڈین،اسٹوڈینٹس ویلفیئر،پروفیسر اوشوندرکور پوپلی،این ایم ایچ سی کے نوڈل آفیسر اور این ایم ایچ سی کے کنوینر ڈاکٹر محمد فیض اللہ سمیت اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ کمیٹی اراکین جیسے کہ پروفیسر فرح ناز اور طلبہ کے نمائندگان تنویر،نیہا اور پراینت کی موجودگی اور تعاون نے پروگرام کو مزید بہتر کردیا۔بیداری مہم میں تخلیقی چاشنی ڈالتے ہوئے کیرالہ فیسٹول ’موزریس‘ کے سرگرم جلوس کی شمولیت سے تہذیب و سرگرمی کے امتزاج نے سامعین و حاضرین کی توجہ اور تخیل کے لیے سامان تسکین فراہم کردیا۔ بیداری مہم میں پانچ سو سے زیادہ تعداد میں پرجوش طلبہ اور اساتذہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ان کی فعال شراکت نے کمیپس میں ہر کسی کے لیے منشیات سے پاک اور صحت مند تعلیمی فضا کے فروغ کے تئیں جامعہ کے پختہ عہد کو اجاگر کیا ہے۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیمی سال دوہزار پچیس اور چھبیس کے لیے درخواست دینے کی آخری تاریخ بڑھا کر تیرہ اپریل کردی گئی ہے۔چودہ اپریل سے پندرہ اپریل کے درمیان فارم میں تبدیلی کرنے کے لیے فارم دستیاب ہوں گے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یوجی،پی جی،پی جی ڈپلوما،ایڈوانسڈ ڈپلوما،ڈپلوما اور سرٹیفکٹ کورسیز میں درخواست دینے کی آخری تاریخ میں توسیع کرتے ہوئے اسے تیرہ اپریل دوہزار پچیس کردیا گیاہے۔بڑی تعداد میں درخواست دہندگان کی طرف سے درخواست دینے کے لیے مزید وقت کی درخواست کے پیش نظر مقتدر اعلی نے ایسی درخواستوں پر از راہ کرم توجہ کرتے ہوئے فارم بھرنے کی آخری تاریخ دس اپریل سے بڑھا کر تیرہ اپریل کردی ہے۔پروفیسر مظہر آصف شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کہا ”ہم نے فارم بھرنے کی آخری تاریخ میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ملک کے دوردراز علاقوں سے خاص طورسے دیہی اور جغرافیائی لحاظ سے پس ماندہ علاقوں کے امیدواروں کے لیے جھیں ڈیجیٹل رسائی اور بجلی کی قلت سے تکنیکی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے یا کسی بھی جائز وجوہات کی وجہ سے فارم نہیں بھر سکے تھے انھیں پریشانی نہ ہو اور آنے والے تعلیمی سال میں فارم بھرنے کے لیے ان کے پاس وقت ہو۔“ خواہش مند طلبہ اب جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تعلیمی سال دوہزار پچیس اور چھبیس کے لیے جامعہ ایڈمیشن پورٹل پر جاکر مختلف کورسیز میں فارم بھرنے کے لیے تین دن کی توسیع سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ داخلہ فارم میں تبدیلی چودہ اور پندرہ اپریل دوہزار پچیس تک کی جاسکتی ہے۔ایڈمیشن پورٹل پر آن لائن داخلہ فارم دستیاب ہے جس کا ایڈریس یہ ہے:https://admission.jmi.ac.in
قومی اور بین الاقوامی رینکنگ کی وجہ سے جامعہ ایک اہم ترین ترجیح کے طورپر مرکزی یونیورسٹی بن چکی ہے۔قابل ذکر ہے کہ این آئی آر ایف رینکنگ دوہزار چوبیس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نے لگاتار تیسری مرتبہ یونیورسٹی زمرے میں تیسرا مقام حاصل کیا اور اسے ناک،وزارت تعلیم کی جانب سے اعلیٰ ترین گریڈ اے پلس پلس بھی مل چکاہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais