
ڈھاکا، 28 دسمبر (ہ س)۔
بنگلہ دیش میں فروری میں ہونے والے انتخابات کے لیے پرچہ نامزدگی جمع کرنے کی آخری تاریخ سے ٹھیک ایک دن پہلے، طلبہ کی قیادت والی نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) میں بھاری اندرونی اختلاف ابھر کر سامنے آیا ہے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد اور سیٹوں کی تقسیم کی مخالفت میں تنظیم کے دو اہم رہنماوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ کئی دیگر ناراض رہنماوں کے تنظیم سے جلد ہی علیحدہ ہونے کے تذکرے ہیں۔ ان رہنماوں نے تنظیم کے کنوینر ناہید اسلام کو خط لکھ کر جماعت کے ساتھ اتحاد کو غداری اور نظریے کو کمزور کرنے جیسا قرار دیا ہے۔
بنگلہ دیش کے اہم اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق طلبہ تحریک سے پیدا ہوئی طلبہ کی قیادت والی این سی پی کی سینئر جوائنٹ سکریٹری تسنیم زرا نے ہفتہ کو اپنے استعفے کا اعلان کیا۔ جبکہ جوائنٹ سکریٹری ارشد الحق نے جمعرات کو عہدہ چھوڑ دیا۔ رپورٹ کے مطابق جماعت اسلامی سے اتحاد کو لے کر ناراض کئی دیگر رہنما جلد استعفیٰ دے سکتے ہیں۔
ان ناراض رہنماوں نے تنظیم کے کنوینر ناہید اسلام کو خط لکھ کر جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کو زمینی سطح کے رہنماوں کے ساتھ غداری قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پارٹی کے نظریے کو کمزور کرے گا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ، ”ہماری بنیاد ہماری پارٹی کا اعلانیہ نظریہ، جولائی بغاوت سے جڑی تاریخی جوابدہی اور جمہوری اخلاقیات کے بنیادی سوال ہیں۔“
جولائی بغاوت کا ذکر کر الزام لگایا گیا ہے کہ جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم، اسلامی چھاتر شیبر تقسیم کرنے والی سیاست، دراندازی، توڑ پھوڑ، این سی پی کے خلاف جھوٹے الزامات، اسٹوڈنٹس یونین انتخابات کے دوران پرچار اور خواتین ممبران پر آن لائن کردار کشی میں ملوث رہے ہیں۔ خط میں جماعت کی 1971 میں آزادی مخالف کردار، قتل عام میں اس کی ملی بھگت اور جنگی جرائم پر اس کے رخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بنگلہ دیش کے جمہوری شعور اور پارٹی کی اقدار کے ساتھ بنیادی طور پر غیر ہم آہنگ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ کوئی بھی اتحاد پارٹی کی اخلاقی پوزیشن کو کمزور کرے گا اور پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔ خط میں رہنماوں کو یاد دلایا گیا کہ انہوں نے پہلے بھی اصلاحات کے مسائل پر جماعت کے دوہرے رویے کی تنقید کی تھی۔ پارٹی کنوینر کو تحریر کردہ خط میں 30 این سی پی رہنماوں نے لکھا کہ، ”اگر اعتدال پسند حامی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو پارٹی اپنا وسطی بنیاد کھو دے گی۔ اس سے این سی پی کی آزاد سیاسی صلاحیت کو نقصان پہنچے گا۔“ خط میں جماعت کے ساتھ کسی بھی اتحاد کے خلاف واضح رخ اپنانے کی اپیل کی گئی۔ شروعات میں طلبہ کی قیادت والی این سی پی گزشتہ 2 مہینوں سے اکیلے الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہی تھی، لیکن ڈھاکا-8 سے آزاد امیدوار اور انقلاب منچو کے ترجمان شریف عثمان بن ہادی کے قتل کے بعد اس نے اپنا رخ بدل لیا۔ تب سے، این سی پی رہنماوں اور کارکنان کے درمیان سیکورٹی سے متعلق تشویش بڑھ گئی ہے، جبکہ پارٹی کا دوسرا مضبوط دھڑا یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ قومی سیاست میں این سی پی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے کسی اہم سیاسی طاقت کے ساتھ اتحاد کرنا ضروری ہے۔ اسی لحاظ سے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کی طرف بڑھا ہے۔
حالانکہ پارٹی میں جماعت کے ساتھ اتحاد کی کوششوں پر گہرا اعتراض ہے۔ تنظیم سے جڑی کئی خواتین رہنما بھی مذہبی پارٹیوں سے اتحاد کے خلاف کھل کر عدم اتفاق جاتا چکی ہیں۔ این سی پی نے ابھی تک اتحاد کو لے کر کوئی سرکاری اعلان نہیں کیا ہے لیکن چرچا ہے کہ جماعت کے ساتھ سیٹ بٹوارے پر بات چیت آخری مرحلے میں ہے اس لیے پارٹی رہنماؤں کی طرف سے استعفے کا اعلان شروع ہو چکا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / انظر حسن