اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے خلاف چار فریقی اتحاد کا رد عمل
قاہرہ،27دسمبر(ہ س)۔مصر کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کے خطے کو تسلیم کرنے کے ردعمل میں مصر، صومالیہ، جبوتی اور ترکیہ کی جانب سے کسی بھی ایسے متوازی وجود کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے جو صومالی ریاست کی وحدت کے منافی ہو۔ جمعہ کو م
اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے خلاف چار فریقی اتحاد کا رد عمل


قاہرہ،27دسمبر(ہ س)۔مصر کی وزارت خارجہ نے اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کے خطے کو تسلیم کرنے کے ردعمل میں مصر، صومالیہ، جبوتی اور ترکیہ کی جانب سے کسی بھی ایسے متوازی وجود کو مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے جو صومالی ریاست کی وحدت کے منافی ہو۔ جمعہ کو مصر کے وزیر خارجہ بدر عبد العاطی نے صومالیہ کے وزیر خارجہ عبدالسلام عبدی علی، ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان اور جبوتی کے وزیر خارجہ عبد القادر حسین عمر کے ساتھ فون پر رابطے کیے تاکہ خطہ ” صومالی لینڈ“کو اسرائیل کی جانب سے تسلیم کیے جانے سے متعلق ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔چاروں ملکوں کے وزراءنے اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کیے جانے کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور اس کی مذمت کرنے کی تصدیق کی اور صومالیہ کی وحدت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے مکمل حمایت پر زور دیا۔ انہوں نے کسی بھی ایسے یکطرفہ اقدامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا جو صومالی خودمختاری کو متاثر کریں یا ملک میں استحکام کی بنیادوں کو نقصان پہنچائیں۔ وزراءنے صومالیہ کے جائز ریاستی اداروں کی حمایت اور صومالی ریاست کی وحدت سے متصادم متوازی وجود مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرنے پر بھی زور دیا۔ان رابطوں کے دوران اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریاستوں کے علاقوں کے کچھ حصوں کی آزادی کو تسلیم کرنا ایک خطرناک مثال اور بین الاقوامی امن و سلامتی اور بین الاقوامی قانون کے مستحکم اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے لیے ایک خطرہ ہے۔ چاروں وزراءنے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں کی وحدت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام بین الاقوامی نظام کے استحکام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ کسی بھی بہانے سے اس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس سے انحراف کیا جا سکتا ہے۔وزراءنے نئی حقیقت مسلط کرنے یا متوازی ادارے بنانے کی کسی بھی ایسی کوشش کو مسترد کردیا جو بین الاقوامی قانونی حیثیت کے منافی ہوں اور سلامتی، استحکام اور ترقی کے حصول کے مواقع کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے باہر نکالنے کے کسی بھی منصوبے کو دو ٹوک انداز میں مسترد کر دیا۔یاد رہے ”صومالی لینڈ “ نے 1991 میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد موغادیشو سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تاہم تب سے اب تک اسے اقوام متحدہ کے کسی بھی رکن ملک کی جانب سے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ اسے بین الاقوامی سطح پر وفاقی صومالیہ کے اندر ایک خود مختار علاقے کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے۔سال 2024 کے آغاز میں ایتھوپیا نے ”صومالی لینڈ“ کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جس کے تحت ادیس ابابا کو اس علاقے کی آزادی کو باضابطہ تسلیم کرنے کے بدلے بربرہ بندرگاہ میں بحیرہ احمر پر ایک بحری راستہ اور فوجی اڈہ حاصل ہونا تھا۔ اس معاہدے نے موغادیشو میں شدید غصہ پیدا کیا اور صومالیہ نے اسے اپنی خودمختاری پر جارحیت قرار دیا تھا جس کی وجہ سے اس نے مصر اور ترکیہ کے ساتھ اپنے فوجی اور سیاسی اتحاد کو مضبوط کردیا ہے۔مصر نے پہلے ہی اعلان کر رکھا ہے کہ صومالیہ کی سلامتی اور وحدت اس کی قومی سلامتی کا اٹوٹ انگ ہے۔ خاص طور پر ڈیم آف ری نیساں پر ایتھوپیا کے ساتھ اس کے تنازع کے پیش نظر بھی یہ اعلان کیا گیا۔ قاہرہ کسی بھی ایسی ایتھوپیا کی موجودگی کو مسترد کرتا ہے جو بحیرہ احمر میں اس کے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ ہو۔ حال ہی میں قاہرہ میں اپنے صومالی ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر سیسی نے ایک سخت پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ مصر صومالیہ کو لاحق کسی بھی خطرے یا اس کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دے گا۔

مصری صدر السیسی نے کہا ہے کہ مصر ان لوگوں کا مقابلہ کرے گا جو صومالیہ کے لوگوں کو دھمکانے کی کوشش کریں گے خاص طور پر اگر وہ اس کے ملک سے مداخلت کی درخواست کریں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ صومالیہ ایک عرب ملک ہے جسے اپنی خودمختاری خطرے میں پڑنے کی صورت میں مشترکہ عرب دفاعی معاہدے کو فعال کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔ اگست 2024 میں دونوں ملکوں کے درمیان ایک اسٹریٹجک شراکت داری پر دستخط ہوئے جہاں دونوں ملکوں نے ایک فوجی تعاون پروٹوکول اور مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اس سال جنوری میں تعلقات کو جامع سٹریٹجک شراکت داری کی سطح تک بڑھانے کے لیے مشترکہ سیاسی اعلامیہ پر دستخط کیے گئے جس میں صومالیہ میں استحکام کی حمایت کے لیے افریقی یونین کے مشن میں شرکت کے لیے مصری افواج بھیجنے کے اقدامات کا آغاز بھی شامل تھا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande