پریم چند کی ذہن سازی میں ملک کے سیاسی حالات کے ساتھ گھریلو ماحول کا بھی اہم کردار ہے: پروفیسر علی احمد فاطمی
غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی جشن غالب تقریبات کا افتتاحنئی دہلی،26دسمبر(ہ س)۔ منشی پریم چند نے ہوش سنبھالا تو سرشار، رسوا اور یلدرم وغیرہ کے ذریعے ماحول بن چکا تھا، سیاسی، سماجی عناصر ابھی ابھی ادب میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر
پریم چند کی ذہن سازی میں ملک کے سیاسی حالات کے ساتھ گھریلو ماحول کا بھی اہم کردار ہے: پروفیسر علی احمد فاطمی


غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ روزہ بین الاقوامی جشن غالب تقریبات کا افتتاحنئی دہلی،26دسمبر(ہ س)۔

منشی پریم چند نے ہوش سنبھالا تو سرشار، رسوا اور یلدرم وغیرہ کے ذریعے ماحول بن چکا تھا، سیاسی، سماجی عناصر ابھی ابھی ادب میں داخل ہوئے تھے لیکن پھر بھی پرانی طرز تحریر کا کہرا ابھی باقی تھا۔ در اصل پریم چند کو پریم چند بنانے میں اس وقت کے ہنگامی ماحول کے علاوہ ان کا اپنا گھریلو ماحول بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ بنارس کا لمہی گاو¿ں اور نچلے متوسط طبقے کی چھا?ں، سوتیلی ماں کی حکومت ، کسانوں اور مزدوروں کی تباہ حالی، کم عمری میں ذمہ داریوں کا بوجھ ان سب عناصر نے مل کر پریم چند کے ذہن کو ایک سانچے میں ڈھالا۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر علی احمد فاطمی نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام بین الاقوامی سمینار ’منشی پریم چند: ذہن زمانہ اور آرٹ‘ کا کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ معروف مترجم اور ادبی تاریخ نویس ڈاکٹر رخشندہ جلیل نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا غالب انسٹی ٹیوٹ ہر سال غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے بین الاقوامی سمینار کا انعقاد کرتا ہے اور اس موقع پر سمینار کے لیے جن موضوعات کا انتخاب ہوتا ہے ان میںاپنے زمانے کی سمت و رفتار کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ پریم چند پر ہندی اور اردو میں جو کچھ لکھا گیا اس کا تجزیہ اور نئے گوشوں کی تلاش اس سمینار کا بنیادی مقصد ہے۔ سمینار کا افتتاح ہندی کے معروف ادیب و شاعر جناب اشوک واجپئی نے کیا۔ انھوں نے کہا پریم چند بلا شبہہ عظیم فنکار ہیں، ان کی تمام تحریریں اگر پیش نظر ہوں تو وہ مذہب نسل وغیرہ کی تفریق سے بالا تر نظر آئیں گے۔ ان کا اصل مسئلہ انسانیت اور اس کے تقاضے و فرائض ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے صدارتی تقریر کے دوران کہا ہم اپنے اسکول کے زمانے سے پریم چند کو پڑھ رہے ہیں اور آج بھی ان کا مطالعہ زندگی کے کسی نئے تجربے کا احساس دلاتا ہے۔ اب میں پریم چند کو کسی اور نظر سے دیکھتا ہوں اور یقینا ادبی معاشرے کے زاویوں میں بھی تبدیلی آئی ہوگی، اس تبدیلی کو مذاکرے کا موضوع بنانا ہماری اجتماعی تفہیم کو آگے بڑھائے گا۔ پروفیسر آلوک رائے (پریم چند کے پوتے) نے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ انھوں نے کہا پریم چند کو ہم یہاں یاد کرنے جمع ہوئے ہیں،اس اعتبار سے ہماری آمد اور شرکت ایک تاریخی لمحے اور موقع کی گواہ بھی بننے والی ہے۔جلسے تو ہوتے ہی رہتے ہیں مگر پریم چند پر انٹرنیشنل سمینار کا ہونا خود ہمیں داخلی طور پر حوصلہ دیتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پریم چند ہمارے درمیان اپنی سادگی اور سچائی کے ساتھ موجود ہیں۔پروفیسر پروشوتم اگروال نے اس جلسے میں بطور مہمان ذی وقارشرکت کی۔ انھوں نے کہاپریم چند نے زمانے کو جس نظر سے دیکھا وہ پہلی نظر میں بہت عام لگتا ہے لیکن اس میں گہرائی بہت ہے۔ ان کے جو احسانات ہمارے ادب اور تہذیب پر ہیں،ان کی شکر گزاری اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم نئے سرے سے ان کی طرف متوجہ ہوں۔ پروفیسر اپوروا نند نے کہا پریم چند کی تخلیقات میں کسان، مزدور، عورت اور پسماندہ طبقوں کو مرکزیت حاصل ہے۔ ان کو آسان لکھنے والا یا فقط اخلاقیات کا رہبر کہہ کر ٹالنا مناسب نہیں ہے بلکہ وہ اقتدار، استحصال اور پسماندہ طبقے کے مسائل کو فنی ہنرمندی سے پیش کرتے ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے اظہار تشکر کے دوران کہا غالب تقریبات جو ہر سال دسمبر میں ہوتی ہیں اس کے موضوعات ادبی دنیا میں نئے مباحث کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ پریم چند پر دلی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا انٹرنیشنل سمینار ہے۔اس کا عنوان بھی یعنی پریم چند،ذہن،زمانہ اور آرٹ بڑی حد تک پریم چند کی تخلیقات اور زمانے سے ان کے رشتے کو ظاہر کرتا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ ہم نے اپنی وراثت کو نئے سرے سے دیکھنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ افتتاحی اجلاس میں غالب انسٹی ٹیوٹ کی نئی مطبوعات ’فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے‘، ’غالب کے خطوط انتخاب‘ مرتبہ پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی،’پنڈت رتن ناتھ سرشار: شخص عہداور تخلیقی جہات‘ مرتبہ ڈاکٹر ادریس احمد، ’پروفیسر عبدالستار دلوی: محقق اور دانشور‘، ’خواجہ حیدر علی آتش اور ان کا عہد‘، ’غالب کے تین اہم معاصرین صہبائی آزردہ اور شیفتہ‘، ’جنوبی ہند میں غالب شناسی‘، ’غالب شناسی عہد حاضر کے آئینے میں‘، مرتبہ ادریس احمد، ’غالب کی شاعری میں نشاط و غم‘ مرتبہ پروفیسر ثروت خان، ’پریم چند: تنقیدی تناظرات‘ مرتبہ پروفیسر سرورالہدیٰ۔ غالب نامہ کے دو شمارے، جولائی 2025 اور جنوری 2026ڈائری، کلینڈر 2026۔ غالب تقریبات کے موقع پر منشی پریم چند کی تصویروں اور ان کی مطبوعات کی نمائش کا افتتاح پریم چند کے پوتے پروفیسر آلوک رائے کے دست مبارک سے ہوا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد شام غزل کا اہتمام ہوا جس میں ملک کی معروف غزل سرا محترمہ ودیا شاہ نے غالب اور دوسرے اہم شعرا کا کلام پیش کیا۔ سمینار کے تکنیکی اجلاس 27 اور 28 دسمبر کو صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک ایوان غالب میں ہوں گے۔ کل شام چھ بجے عالمی مشاعرے کا انقاد ہوگا جس میں ملک و بیرون ملک کے نامور شعرا کلام پیش کریں گے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande