
مسجد اصلاح میں ماہانہ دینی واصلاحی نشست کا انعقاد نئی دہلی،09نومبر(ہ س)۔گذشتہ شب (ہفتہ) کو مسجدِ اصلاح میں حسبِ معمول مجلس تحفظ ختم نبوت دہلی کے زیر اہتمام ماہانہ دینی و اصلاحی نشست ’فرعون کی بیوی حضرت آسیہ قرآن وحدیث کی روشنی میں‘ کے عنوان پر نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد ہوئی۔ جس میں ملک کے معروف ونامور عالم دین مفسر قرآن حضرت مولانا انیس احمد آزاد قاسمی بلگرامی نقشبندی مجددی کا پر مغز اور فکر انگیز خطاب ہوا۔
مولانا نے اپنے خطاب کے آغاز میں سورة تحریم کی آیت نمبر ۱۱ کو بطورِ حوالہ پیش کیا: جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ نے ایمان والوں کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی۔مولانا نے فرمایا کہ حضرت آسیہ کا ذکر قرآنِ کریم میں محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک دینی اور اخلاقی پیغام ہے جو ہر دور کے مومن مرد و عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپﷺ ایمان، صبر، استقامت، اور قربانی کی وہ روشن مثال ہیں جنہوں نے دنیوی جاہ و جلال کے مقابلے میں ایمان کی حرارت کو ترجیح دی۔انہوں نے کہا کہ فرعون کا محل دنیاوی شان و شوکت کی انتہا پر تھا، لیکن حضرت آسیہ نے وہاں بھی توحید کی شمع روشن کی۔ جب فرعون نے ان کے ایمان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو انہوں نے عزم و ایمان سے فرمایا:’اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے‘۔مولانا نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت آسیہﷺ نے دنیا کے تمام لذتوں اور آرائشوں کو ٹھکرا کر قربِ الٰہی کی طلب کی، جو ایمان کی معراج ہے۔اپنے خطاب کے دوران مولانا نے احادیثِ مبارکہ سے بھی کئی واقعات بیان کیے جن میں نبی کریم ﷺ نے حضرت آسیہ کو چار کامل خواتین میں شمار فرمایا حضرت مریمﷺ، حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ اور حضرت آسیہ، مولانا نے کہا کہ یہ چاروں خواتین اللہ کی قربت، صبر، عفت، حیا اور ایثار میں انسانیت کی معراج پر فائز ہیں۔مولانا انیس آزاد قاسمی نے موجودہ معاشرتی حالات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج مسلم خواتین کو بھی حضرت آسیہﷺ کے کردار سے رہنمائی لینی چاہیے۔ مادّی دنیا کے شور و شر میں ایمان، حیا اور عزمِ صادق پر قائم رہنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بھی نصیحت کی کہ وہ دنیاوی مفادات کے بجائے ایمان و اخلاق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی سمت متعین کریں۔انہوں نے کہا کہ حضرت آسیہﷺ کا پیغام یہ ہے کہ ایمان انسان کے دل کا فیصلہ ہے، ماحول یا طاقت کا نہیں۔ اگر دل میں ایمان کا چراغ روشن ہو تو فرعون کے محل میں بھی بندہ مو¿من بن سکتا ہے، اور اگر دل مردہ ہو تو مسجد میں بیٹھ کر بھی انسان غافل رہتا ہے۔
پروگرام کے آخر میں مولانا نے نہایت درد مندی کے ساتھ دعا فرمائی۔ دعا میں امتِ مسلمہ کے اتحاد، وطنِ عزیز کے امن وسلامتی، نوجوان نسل کی دینی بیداری، اور عالمِ اسلام کی ترقی کے لیے خاص طور پر دعائیں مانگی گئیں۔شرکائے نشست نے مولانا کے خطاب کو ایمان افروز، علمی، اور اصلاحی قرار دیا، جس سے ان کے اندر بیداری اور دین سے وابستگی کی ایک نئی کرن پھوٹتی نظر آئی، نیز حالات سے مقابلہ آرائی اور دین متین پر صبر واستقامت کے ان کے جذبہ کو مزید مہمیز ملی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais