سائنس اور ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے شعبہ جغرافیہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ چھٹے ایشیائی کانفرنس کا افتتاح کیا
نئی دہلی،07نومبر(ہ س)۔مرکزی وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی اور وزیر برائے ارضی سائنسز ڈاکٹر جیتندر سنگھ نے کل انصاری آڈیٹوریم میں شعبہ جغرافیہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ایشین جغرافیکل ایسو سی ایشن(اے جی اے) کے اشتراک سے منعقدہ ایشیائی کانفرنس(ا
سائنس اور ٹکنالوجی کے مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے شعبہ جغرافیہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام منعقدہ چھٹے ایشیائی کانفرنس کا افتتاح کیا


نئی دہلی،07نومبر(ہ س)۔مرکزی وزیر برائے سائنس و ٹکنالوجی اور وزیر برائے ارضی سائنسز ڈاکٹر جیتندر سنگھ نے کل انصاری آڈیٹوریم میں شعبہ جغرافیہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ایشین جغرافیکل ایسو سی ایشن(اے جی اے) کے اشتراک سے منعقدہ ایشیائی کانفرنس(اے سی جی۔دوہزار پچیس)کا افتتاح کیا۔ مورخہ چھ نومبر تا آٹھ نومبر منعقد ہونے والی سہ روزہ کانفرنس کا مرکزی خیال ’ایشیائی ملکوں میں آب و ہوا کی تبدیلی،شہری کاری اور وسائل کی مستقل اور پائے دار بندوبست‘ تھا۔ واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جغرافیہ کے موضو ع پر موقر ایشائی کانفرنس منعقد ہورہی ہے جو جامعہ اور جامعہ کے شعبہ جغرافیہ کے لیے یادگار لمحہ ہے۔

ممتاز ماہر تعلیم اور سابق چیئر مین،یوجی سی پروفیسر ڈی پی سنگھ،پروفیسر مظہر آصف شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی،مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ نے پروگرام میں شریک ہوکر پروگرام کے وقار کو بڑھایا۔اس موقع پر پروگرام میں ممتاز عالمی اسکالر پروفیسر یوجی مورایا،نائب صدر،ایشین جغرافیکل ایسو سی ایشن،جاپان، پروفیسر کینتا یماموتو،سیکریٹری،کنسورٹیم آف جیو گرافیکل سائنسز،جاپان، اور محترمہ ڑوانی ڑھانگ،سیکریٹری و خزانچی،ایشین جیوگرافیکل سائنسز بھی شریک تھے۔پروفیسر سعید الدین،ڈین،فیکلٹی آف نیچرل سائنسز،پروفیسر عتیق الرحمان،منتظم سکریٹری اورپروفیسر ہارون سجاد مشترک منتظم سکریٹری،پروفیسر لبنی صدیقی،خزانچی اور شعبہ جغرافیہ کے تمام اساتذہ اور رسرچ اسکالر بھی افتتاحی پروگرام میں شامل تھے۔مندوبین نے اس تاریخی پروگرام کے انعقاد کی ذمہ داری جامعہ کو سونپنے پر ایشین جیوگرافیکل ایسو سی ایشن کی تعریف کی۔اپنے افتتاحیہ خطبے میں بطور مہمان خصوصی پروگرام میں شریک ڈاکٹر جیتندر سنگھ نے کہا کہ ایک ایسے موقع پر جب جامعہ اپنا تاریخی ایک سوپانچواں یوم تاسس منارہی ہے جامعہ میں آنے سے انہیں مسرت ہورہی ہے۔

وزیر موصوف نے کہاکہ یہ پروگرام بروقت ہورہاہے اور آب و ہوا کی تبدیلی،شہری کاری اور وسائل کی انتظام کاری سے گہرے طورپر منسلک موضوع پر مرکوز ہے جو معاصر،مسقتبلیت اور عالمی تشویش جیسے مسائل سے جڑا ہواہے۔ڈاکٹر سنگھ نے بتایا کہ ایشیا اور جنوبی ایشیا میں سات سو پچاس ملین سے زیادہ لوگ آب وہوا کی تبدیلی سے ہونے والی سخت آلودگی اور ضرر رساں چیزوں سے براہ راست رابطے میں ہیں اورانہوں نے بتایا کہ دوہزار پچاس تک دنیا کے سب سے زیادہ آلودگی والے شہروں میں دہلی، ڈھاکہ، بنگاک اورمنیلا وغیرہ ہوں گے۔ ہندوستان میں اے سی جی کا سب سے پہلا پروگرام منعقد کرنے کے لیے انہو ں نے جامعہ کی ستائش کی،وزیر موصوف نے کہاکہ عزت مآب وزیر اعظم شری نریندر مودی جی کی قیادت اور بین علومی نظام کی تشکیل کے تئیں ان کی کاوشوں سے اقتصادی ترقی کو ماحولیاتی پائے داری سے مربوط کرنے میں ہندوستان ایک عالمی سربراہ کے طور پر ابھراہے۔انہوں نے آب وہوا کی تبدیلی سے متعلق ایکشن پلان (این اے پی سی سی)اسٹیٹ ایکشن پلانس،اسمارٹ سیٹیز مشن، امرت اور سوچھ بھارت مشن سمیت پائے داری سے متعلق ہندوستان کے پالیسی خاکہ کو واضح کیا۔انہوں نے کہاکہ عزت مآب وزیر اعظم شری نریندر مودی جی کی قیادت میں یہ اہم پروگرام ’آب وہوا کے انصاف اور صنعتی ترقی کو یقینی بنانے‘ کے ہندوستان کے عہد کو اجاگر کرتاہے۔کسی بھی سرکاری پہل اور اقدام کی کامیابی کی کلید عوام کی شراکت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہاکہ ”جب تک سماجی تحریک نہیں ہوگی تب تک کوئی بھی پالیسی یا سمینار سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔“ اورعوامی بیداری پیدا کرنے اور پائے دار و مستقل عادا ت کے فروغ کے لیے سوشل میڈیا اور شارٹ ڈیجیٹل کنٹینٹ جیسے ویڈیو ریل بنانے کا مشور دیا کیوں کہ آب و ہوا کا مسئلہ صرف اسکالر، سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے۔

پروفیسر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کانفرنس کی تعریف کرتے ہوئے اسے کہا کہ’صرف بامعنی نہیں بلکہ انتہائی انقلاب آفریں ہے۔‘اور غیر معمولی شہر ی کاری،کاربن اور دیگر مضر فضلہ ایندھنوں کے اخراج،پیڑوں کو کانٹنے کے خلاف آگاہ کیا۔انہوں نے ’فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ گزر بسر کرنے اور قدرتی وسائل کے حدسے زیادہ اور بے جا استعمال کو روکنے‘ کی ضرورت بتائی۔پروفیسر رضوی، مسجل جامعہ ملیہ اسلامیہ نے اپنی تقریر میں وسائل کی پائے دار انتظام کاری،پلاسٹک کے استعمال میں کمی،اور صاف ستھری توانائی پر زیادہ انحصار اور الیکٹرانک گاڑیوں (ای ویز) کی طرف مائل ہونے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ جامعہ کے لیے لمحہ افتخار ہے کہ وہ این آئی آر ایف کی رینکنگ دوہزار پچیس میں ایس ڈی جیز (پائے دار ترقی اہداف) کے زمرے میں ملک بھر میں تیسرے نمبر پر آئی جو کیمپس میں پائے دار ترقی کی عادات کی حوصلہ افزائی کرنے کے تیں جامعہ کے عہد کو ظاہر کرتاہے اور اس حد تک جامعہ کو امید ہے کہ یو این۔ایس ڈی جیز کے نفاذ اور ان کی عمل آوری کے لیے وہ ایک نمونہ بنے گی۔

پروفیسر یوجی مورایاما نے کہاکہ جامعہ ملی اسلامیہ میں اے سی جی۔دوہزار پچیس ’صرف کانفرنس نہیں بلکہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے بر اعظموں میں ایک کے روزانہ کی حقیقت کی عکاسی ہے۔ایشیا جو کہ آب وہوا کی تبدیلی کے شکار ہونے والوں کا ہاٹ اسپاٹ اور مزاحمت کی زندہ و جاوید تجربہ گاہ ہے۔“پروفیسر کینتا یماموتو نے کہاکہ کانفرنس اے جی اے اور اجی سی۔دوہزار پچیس ’تہذیبو ں اور ثقافتوں پر عالمی نظر کے ساتھ مقامی علوم وفنون کی عزت کرتی ہے۔انہوں نے زور دیا کہ کانفرنس کی تھیم ’ایشیا کے مستقبل کے لیے غیر معمولی طورپر اہم ہے۔“پروگرام کے مہمان اعزازی،پروفیسر ڈی پی سنگھ نے قومی تعلیمی پالیسی دوہزار بیس کی مسودہ کمیٹی اور جائزہ کار کمیٹی کے رکن کے بطور ان کی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے لیے شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر مظہر آصف کی ستائش کی اورکہاکہ زمین، پانی اور کرہ ارض کے دیگر وسائل پر غیر معمولی دباو¿ کے سبب لو، قحط اور دیگر قدرتی آفات واقع ہورہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایشیا کے لیے وقت آگیاہے کہ قابل تجدید توانائی جیسے کے شمسی و ہوائی توانائیوں کے فروغ اور استعمال کے تئیں بڑے قدم اٹھائیں۔پروفیسر سنگھ نے کہاکہ آب و ہوا کی تبدیلی سترہ ایس ڈی جیز کے ساتھ بلاواسطہ گہرے طورپر مربوط ہے۔پروفیسر ڈی پی سنگھ نے کہاکہ ایشیائی ممالک کو پائے دار شہری منصوبہ بندی،صاف و شفاف توانائی کو اپنانا چاہیے اور اسمارٹ شہروں کی تعمیر کرنی چاہیے اور دیگر ماحول دوست عمل بھی اپنانے چاہئیں۔

اے سی جی دوہزار پچیس نے سولہ اہم ذیلی عناوین پر توجہ دی ہے جو اہم عالمی مسائل جیسے آب وہوا کی تبدیلی،شکار ہونے کی تشخیص،شہری چیلنجز اور انتظام کاری، واٹر شیڈ اور قدرتی وسائل کی انتظام کاری،پیری اربن اور ماحولیاتی پائے داری، تیار شدہ ماحولیات اور اربن ہیٹ ان لینڈ کے اثرات،عالمی و علاقائی ماحولیاتی چیلنجیز،حیاتی تنوع،سخت موسمی واقعات اور آفات کی تخفیف، وسائل کی پائے داری، قدرت اساس حل اور ایس ڈی جیز، تیار شدہ ماحول میں صحت و خوش حالی،پائے دار زراعت اور خوراک کا نظام،اربن صحت اور سماجی خوشحالی،آفات کے خطرات کو کم کرنے اور ان سے مزاحم آلات و وسائل میں اختراعیت،ماحول دوست خدمات،پائے دار لینڈ یوز پلاننگ، آب و ہوا کی تبدیلی سے مطابقت اور پائے دار معاشرے، پانی،توانائی۔خوراک کے باہمی ربط سے مربطو وسائل انتظام کاری اور آب وہوا کی تبدیلی اور وسائل انتظام کاری کے لیے مقامی جغرافیہ کا اطلاق۔ کانفرنس میں کل چارسو نو شرکا نے رجسٹریشن کرایا ہے جن میں ترپن بیرونی مندوبین ہیں اور تین سو چھپن ہندوستانی مندوبین شامل ہیں۔ تقریبا ً تین سو پچھتر شرکا پروگرام میں بنفس نفیس شریک ہورہے ہیں اور چھبیس پوسٹر پرزیٹیشن کو رکھے گئے ہیں۔کانفرنس میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) دہلی یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو)بنارس ہندویونیورسٹی(بی ایچ یو)امیٹی یونیورسٹی، الہ آباد یونیورسٹی، پرزیڈینسی یونیورسٹی،کلکتہ یونیورسٹی، جادو پور یونیورسٹی، سینٹرل یونیورسٹی آف پنجاب، لکھنو¿ یونیورسٹی،بانستھالی ودیا پیٹھ، کلنگا یونیورسٹی، راجستھان یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، مہارانا پرتاپ یونیورسٹی (ایم ایس یو) ادے پور، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ، دون یونیورسٹی،ممبئی یونیورسٹی، اور کشمیر یونیورسٹی سے شرکا شامل ہورہے ہیں۔جنوبی اورمشرقی ہندوستان کی دانش گاہوں میں سینٹرل یونیورسٹی آف تمل ناڈو، مرکزی یونیورسٹی،کرناٹکا، مدراس یونیورسٹی، منی پور یونیورسٹی، ناگالینڈ یونیورسٹی، تری پورہ یونیورسٹی،میگھالیہ یونیورسٹی، بوڈولینڈ یونیورسٹی، کاٹن یونیورسٹی، (آسام)راجیو گاندھی یونیورسٹی (ارونا چل پردیش) اور نارتھ ایسٹرن ہل یونیورسٹی (این ای ایچ یو)شیلانگ سے شرکا اپنے مقالات پیش کریں گے۔سرکردہ تکنیکی اور تحقیقی ادارے جیسے بی آئی ٹی ایس گوا، آئی آئی پی ایس،ممبئی، ٹی آئی ایس ایس ممبئی، این آئی ٹی راو¿رکیلا،آئی آئی آئی ٹی الہ آباد،آئی آئی ٹی پٹنہ، اور آئی آئی ٹی بامبے بھی کانفرنس میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں جس سے کانفرنس کی بین علومی گنجائش کا اندازہ ہوتاہے۔ جاپان،چین، ملیشیا، تھائی لینڈ،برطانیہ،جنوبی کوریا،سری لنکا،روس اور سعودی عرب کے نمائندے بھی کانفرنس میں شریک ہورہے ہیں جس سے یہ کانفرنس واقعی ایک عالمی علمی اجتماع میں تبدیل ہوگئی ہے۔کانفرنس کے دوران،چھتیس متوازی اجلاس ہوں گے اور بیس لیڈ لیکچر بھی ہوں گے جن سے تحقیق کی ترویج،پالیسی مباحثہ، اور بین الاقوامی اشتراک کے لیے ایک مذاکراتی پلیٹ فارم مہیا ہورہاہے۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Md Owais Owais


 rajesh pande