
بڑے پیمانے پر حاضرین نے قومی گیت گایا اور اس موقع پر عزت مآب وزیراعظم شری نریندر مودجی کا خطاب بھی براہ راست نشر کیا گیانئی دہلی،07نومبر(ہ س)۔پروفیسر مظہر آصف،شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی، مسجل، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے یونیورسٹی کے ایف ٹی کے سی آئی ٹی آڈیٹوریم میں ڈینز، صدور شعبہ جات،مراکز کے ڈائریکٹرز،فیکلٹی اراکین اور یونیورسٹی اسٹاف کی موجودگی میں قومی گیت ’وندے ماترم‘ کے بڑے پیمانے پر نغمہ سرائی کا اہتمام کرکے اور اس موقع پر عزت مآب وزیر اعظم شری نریندر مودی جی کے خطاب کے براہ راست نشرکے ساتھ قومی گیت کے ایک سو پچاسویں سالگرہ منانے میں پورے ملک کے ساتھ شرکت کی۔عزت مآب وزیر اعظم کو، اندرا گاندھی انڈور نئی دہلی میں قومی گیت ’وندے ماترم کے سال بھر تک چلنے والی یادکا افتتاح کرتے ہوئے دیکھا گیا جس میں انہوں نے یادگاری اسٹیمپ، سکہ بھی جاری کیا جس سے سی آئی ٹی کا پورا ہال وطن پرستی اور مادر وطن کی محبت میں سرشاری کے جذبے سے بھر اٹھا۔
اپنے تعارفی خطاب میں مسجل پروفیسر محمد مہتاب عالم رضوی نے قومی گیت اورجدو جہد آزادی میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ’وندے ماترم‘ انیس سو پانچ تقسیم بنگال کے دوران قومی احتجاج کے لیے جنگ کا استعارہ بن گیا۔ ملک کی تہذیبی و جذباتی ارتباط میں اس کے رول پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر رضوی نے کہاکہ ’یہ گیت زبان،علاقہ اور ذات پات کی بندشوں سے ماورا ہوگیا اور مختلف پس منظروں کے حامل ہندوستانیوں کے درمیان ایک تہذیبی پل بن گیا“۔ انہوں نے کہا کہ گیت کے ’سنسکرت ذخیرہ الفاظ اور مختلف برادریوں سے ہم آہنگ آفاقی روحانی لہجہ نے سیاسی اتحاد کے سامنے ایک جذباتی اتحاد کو تشکیل دے دیا تھا“۔ پروفیسر رضوی نے کہاکہ ’مدر، آئی بو ٹو دی‘ سے خدمت،بے غرضی اور قوم کے تئیں عزت و احترام کے آئیڈیل کا اظہا رہوتاہے اور گاندھی جی کے عدم تشدد اور قربانی کی اخلاقیات سے میل کھاتاہے جس نے مجاہدین آزادی میں مشکلات اور مصائب کو یقین و اعتماد کے ساتھ برداشت کرنے کا جذبہ ابھارا تھا۔“
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وراثت کے حوالے سے وندے ماترم کی معنویت پراظہا رخیال کرتے ہوئے پروفیسر رضوی نے کہاکہ ”جامعہ کا قیام انیس سو بیس میں ہوا تھا اور یہ خود مشترکہ قومیت کا نتیجہ ہے،اور انہیں اقدار کی حامل ہے جو اس گیت میں ہیں۔جامعہ کے بانیان جیسے مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر ذاکر حسین نے شمولیاتی تعلیم اور تہذیبی ہم آہنگی اور وندے ماترم کے پس پردہ اخلاقی جذبہ اخلاص،بے غرض خدمت اور مادر وطن کے لیے محبت و جا نثاری ہمیشہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے مشن سے کامل طورپر ہم آہنگ رہا ہے۔“پروفیسر رضوی نے مزید کہا کہ ”یونیورسٹی آج بھی کثر ت میں وحدت، قوم کی خدمت،تعلیمی خودمختاری جو وندے ماترم کے زندہ مجسم آئیڈیل ہیں جس نے وطن سے محبت کی ذمہ داری کو ایک مقدس فریضے میں تبدیل کردیا ہے۔نوآبادیا ت کے خلاف جدو جہد سے لے کر جدید جمہوریت کے چیلنجز تک اس کی اپیل ’مدر، آئی بو ٹو دی‘ پورے ہندوستان کو جذبہ، تہذیب اور شعور میں متحد کیے ہوئے ہے۔“شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف نے اپنی صدارتی گفتگو میں کہا ’ہر جان دار کو خواہ وہ انسان ہو،جانور ہویا پودہ اپنے مادر وطن سے گہری محبت ہوتی ہے۔ہمارے رہنے سہنے کے گھر سے بھی ہمیں گہر ا جذباتی لگاو¿ ہوتاہے؛ ملک سے محبت قدرتی اور طاقت ور ہوتی ہے۔اسی طرح قومی گیت ’وندے ماترم‘ ہمارے ملک اور مادر وطن بھارت کے تئیں ہمارے گہرے جذباتی لگاو¿ کو بیدار کرتاہے۔“
پروفیسر آصف نے کہاکہ”وندے ماترم اتحاد کا گانا بن گیا ایک نعرہ بن گیا جو جذبے سے بھرا ہوا تھا اور جس نے نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف مختلف عقائد و پس منظروں کے لوگوں کو ایک ہی بینر تلے جمع کردیا۔ نوآبادیاتی حکمرانی کے دور میں اس سے آزادی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے یہ ایک مہتم بالشان آواز تھی‘۔پروفیسر آصف نے مزید کہا کہ ”پوری جامعہ برادری کی جانب سے میں بنکم چندر چٹرجی،ربندر ناتھ ٹیگور،مولانا ابو الکلام آزاد اور سیکڑوں مجاہدین آزادی اور قو م کے معماروں کی ان کے خلوص کے لیے ان کی خدمت کے اعتراف میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔“قومیت کی تاریخ کا جائزہ کے ساتھ جس میں آزادی کے لیے ہندوستان کی جد وجہد اور اس سلسلے میں قومی گیت کے رول کو واضح کرتے ہوئے پروفیسر آصف نے کہاکہ ’قومی گیت کے ایک سو پچاسویں سالگرہ کے آج اس خاص اور اہم موقع پر کامل عہد،جذبے اور فخر کے ساتھ ہم توثیق مزیدکرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیاں ملک کی خدمت کے لیے وقف کرتے ہیں۔“ پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے پروفیسر نیلو فر افضل، ڈین اسٹوڈینٹس ویلفیئر نے شیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ او رمسجل،جامعہ ملیہ اسلامیہ کا شکریہ اداکیا اور خاص طورپر سرگرم شرکت کے لیے جامعہ کے فیکلٹی اراکین اور انتظامی اسٹاف کا شکریہ ادا کیا۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Md Owais Owais