۔ ساورکر کی شخصیت اور افکار کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کرنے کی ضرورت :اودے ماہورکر
۔ ویرساورکرپراردو کتاب کی اشاعت باہمی مکالمے کی راہ ہموار کرے گی:پروفیسرمظہرآصف
نئی دہلی، 09 اکتوبر(ہ س)۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام وزیر اعظم میوزیم،تین مورتی مارگ، نئی دہلی میں”ویر ساورکر: دی مین ہو کڈ ہیو پریونٹیڈپارٹیشن“ کے اردو ترجمہ ’ویر ساورکر اور تقسیمِ ہند کا المیہ‘کی تقریبِ اجرا و مذاکرے کا انعقاد عمل میں آیا۔اس موقعے پر صدارتی خطاب کرتے ہوئے وزیر مملکت براے قانون و انصاف (آزادانہ چارج) وپارلیمانی امورجناب ارجن رام میگھوال نے کہا کہ ویرساورکر ایک عظیم مجاہد آزادی تھے جنھوں نے اس ملک کی آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لیا اور طویل عرصے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،آج ہم ایسی ہی شخصیات کی قربانیوں کی بدولت آزاد بھارت میں سانس لے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ویر ساورکر قومی ایکتا و اکھنڈتا کے تئیں نہایت حساس تھے اور اسی وجہ سے وہ تقسیمِ ہند کے شدید مخالف تھے،اگر ان کے وژن اور منصوبے پر عمل کیا جاتا تو ملک کو ٹوٹنے سے بچایا جاسکتا تھا۔انھوں نے کہا کہ آزادی کے بعد ایک خاص مقصد کے تحت ویر ساورکر کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں ، ان کے افکار و نظریات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیاجوکہ نہایت افسوسناک تھا۔ہمیں خوشی ہے کہ آج پورے ملک میں ویرساورکرجی کے افکار و نظریات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں شروع ہوئی ہیں، اودے ماہورکر جی اور چرایو پنڈت جی کی کتاب اسی سلسلے کی سنہری کڑی ہے جس کے اردو ترجمے کا آج اجرا کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو زبان میں اس کتاب کی اشاعت سے ہمارے مسلم بھائیوں بہنوں اور اردو جاننے والوں تک بھی یہ کتاب پہنچے گی اور اس کے مطالعے سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی۔میں اس کتاب کے مترجم پروفیسر مظہرآصف جی اور ڈاکٹر مسعود عالم جی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس ترجمے کی اشاعت پر قومی اردو کونسل اور اس کے ڈائنامک ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال کوخاص طورپر دلی تہنیت پیش کرتا ہوں جو پورے ملک میں اردو کے پرچار پرسار کے ساتھ نئی نسل کو جدید تکنیکی تعلیم سے بھی جوڑنے کے لیے کوشاں ہیں۔
مہمانِ اعزازی اور کتاب کے مصنف شری اودے ماہورکر جی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ویرساورکر کے حوالے سے سچی اور غیر جانبدارانہ معلومات پیش کی گئی ہیں اور ان تمام غلط فہمیوں کو تاریخی حقائق کی روشنی میں دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے جومخصوص سیاسی نظریے کے تحت پھیلائی گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ قومی اتحاد اور ملک کی خوشحالی و ترقی کے بارے میں ویر ساورکر کے جو نظریات تھے،ان پر عمل کرکے ہم وشو گرو بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی داخلی و خارجی چیلنجز کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس کتاب میں پختہ دلائل کی روشنی میں ساورکر کے ہندوتو کے نظریے کا جائزہ لینے کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق سے ان کی اصل فکر کو پیش کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ ساورکر قومی جدوجہد میں حصہ لینے والے تمام انقلابیوں اور مجاہدینِ آزادی کا احترام کرتے تھے اور اس ملک کی ہمہ گیر ترقی کے سفرمیں مسلمانوں سمیت تمام سماجی طبقات کی شمولیت کو نہایت ضروری سمجھتے تھے۔
اس سے قبل استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے تمام معزز مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ قومی اردو کونسل وزارتِ تعلیم کے تحت سرگرم قومی سطح کا ادارہ ہے،جو پورے ملک میں اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے مختلف اسکیمیں چلا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ کونسل مختلف ادبی،سماجی،طبی و سائنسی موضوعات پر اب تک دو ہزار سے زائد ٹائٹلس شائع کرچکی ہے جن میں بہت سی اہم کتابوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔’ویر ساورکر اور تقسیمِ ہند کا المیہ‘ بھی اسی اسکیم کے تحت شائع کی گئی ہے،جو اردو لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے۔ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ یہ نہ صرف کونسل کے لیے بلکہ پوری اردو دنیا کے لیے ایک اہم موقع ہے، کیوں کہ اب تک اردو زبان میں ویرساورکر پر مستند اور غیرجانبدارانہ حقائق پر مبنی کتاب کی شدید کمی محسوس کی جارہی تھی،جسے قومی اردو کونسل نے دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اردو آبادی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرے گی اور آزاد ہندوستان کےغیر جانبدارانہ تاریخی بیانیے اور تحقیق و تفتیش پر مبنی جہت سے آگاہی حاصل کرے گی۔
مہمانِ اعزازی،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر اور کتاب کے مترجم پروفیسر مظہر آصف نےاظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ویر ساورکر جی کی شخصیت اور قومی ترقی و اتحاد کے ان کے وژن کا دقیق و مبسوط جائزہ پیش کرتی ہے اور اپنے مشمولات کے اعتبار سے یہ ایک جامع اور دلچسپ کتاب ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ویرساورکر کے تعلق سے پھیلائے گئے تمام مغالطوں کا دلائل و شواہد کی روشنی میں جائزہ لیا گیا ہے جن سے ہر ہندوستانی کو واقف ہونا چاہیے۔
کتاب کے شریک مصنف شری چرایو پنڈت اور شریک مترجم ڈاکٹر مسعود عالم نے بھی اظہار خیال کیا اور اس موقعے پر تمام مہمانوں کا شال، مومنٹو اور کتابیں پیش کرکے استقبال کیا گیا۔ پروگرام میں کثیر تعداد میں دانشوران،جامعات کے اساتذہ،میڈیا اہلکار، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد