ماسکو،07اکتوبر(ہ س)۔روسی دفاعی صنعت سے وابستہ کمپنی ’روستیک‘ سے منسوب افشا ہونے والی معلومات کے مطابق، ایران 48 جدید ’سوخوی سو-35‘ لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے ممکنہ مذاکرات کر رہا ہے۔ امریکی جریدے نیوز وِیک کے مطابق یہ معاہدہ یوکرین جنگ کے بعد روس کے سب سے بڑے اسلحہ برآمدی سمجھوتوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔معاہدے کی مالیت 68 کروڑ 60 لاکھ ڈالر بتائی گئی ہے، جس کے تحت 2026 سے 2028 کے درمیان مرحلہ وار طیاروں کی ترسیل کی جائے گی۔ طیاروں کو ’روستیک‘ کی ذیلی کمپنی کے تیار کردہ الیکٹرانک وارفیئر اور ایویونکس سسٹمز سے بھی لیس کیا جائے گا۔ یہ تفصیلات 2 اکتوبر کو افشا ہونے والی روستیک کی فائلوں سے حاصل کی گئی ہیں۔ابھی تک تہران اور ماسکو نے اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی ہے۔ تاہم ایرانی پاسدارانِ انقلاب سے منسلک میڈیا نے اس خبر کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر پھیلایا ہے۔یہ پیش رفت جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ اور اس کے بعد امریکی حملوں کے تناظر میں سامنے آئی ہے، جن میں یرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان واقعات نے ایران کے پرانے فضائی بیڑے کو جدید بنانے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی طیارے ایران کو حملے روکنے اور تزویراتی مقامات کے دفاع کی زیادہ صلاحیت فراہم کر سکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ معاہدہ ماسکو اور تہران کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر مغربی پابندیوں کے پس منظر میں۔امریکی ادارے جیمز ٹاون کے مطابق 2021 سے 2024 کے درمیان روسی اسلحہ کی برآمدات میں 92 فی صد کمی واقع ہوئی ہے، لہذا ایسے معاہدے ماسکو کے لیے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔یہ معاہدہ روس اور ایران کے تزویراتی تعاون کے ایک نئے مرحلے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بالخصوص اس اعلان کے بعد کہ دونوں ملکوں کے درمیان جامع تزویراتی شراکت داری کے معاہدے پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے 27 ستمبر کو ایران کے خلاف ہتھیاروں کی پابندیاں اور دیگر اقدامات دوبارہ نافذ کر دیے تھے۔ یہ اقدام برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی جانب سے ’اسنیپ بیک میکانزم‘ کو فعال کرنے کے بعد کیا گیا۔ان پابندیوں کے تحت ایران پر ایک بار پھر ہتھیاروں کی خرید و فروخت، یورینیم کی افزودگی اور ری پروسیسنگ کی تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایسے کسی بھی بیلسٹک میزائل پروگرام پر پابندی ہوگی جو جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔تہران نے، جو جوہری ہتھیار بنانے کی کسی نیت کی تردید کرتا ہے، خبردار کیا ہے کہ اس اقدام کا سخت جواب دیا جائے گا۔روسی حکومت ایران کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے۔ وہ ایران کے پر امن جوہری توانائی کے حق کی حمایت کرتی ہے اور جون میں امریکی و اسرائیلی حملوں کی مذمت بھی کر چکی ہے جن میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan