نئی دہلی، 09 جنوری (ہ س)۔ دہلی پولیس نے دہلی فسادات کی سازش کے مبینہ ملزم عمر خالد کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس نے جان بوجھ کر فسادات کے دوران دہلی سے باہر رہنے کا منصوبہ بنایا کیونکہ وہ پکڑا نہیں جانا چاہتا تھا۔ جسٹس نوین چاولہ کی سربراہی والی بنچ نے آج دہلی پولیس کی جانب سے طویل دلائل پیش کرنے پر خصوصی سرکاری وکیل امت پرساد پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہاں یہ مقدمہ نہیں چل رہا ہے بلکہ ضمانت کی عرضی پر سماعت ہو رہی ہے۔ ملزم کی درخواست ضمانت پر آئندہ سماعت 21 جنوری کو ہوگی۔
سماعت کے دوران امت پرساد نے کہا کہ عمر خالد نے بہار جا کر تقریر کرنے کے بارے میں بتایا۔ دہلی سے باہر رہنا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی تاکہ وہ پکڑا نہ جائے۔ امت پرساد نے ایک محفوظ گواہ کے بیان کے بارے میں بات کی جس نے اس سازش کو بے نقاب کیا۔
امت پرساد نے کہا کہ عمر خالد اور ان کے والد قاسم الیاس نے جہانگیر پوری کے باشندوں سے کہا کہ وہ غیر قانونی بنگلہ دیشی تارکین وطن کو جنتر منتر پر جمع کریں۔ دہلی پولیس نے محفوظ گواہ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ آپ لوگ جہانگیرپوری سے آئے ہیں۔ وہاں بنگلہ دیش کے لوگ زیادہ ہیں۔ انہیں شہریت ترمیمی قانون کے بارے میں بتاتے رہیں اور ان سے قانون کے خلاف لڑنے کو کہیں۔
جب امت پرساد کے دلائل کافی دیر تک جاری رہے تو عدالت نے پوچھا کہ وہ کتنا وقت لیں گے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم شواہد پر ایک سرسری نظر ڈالنا چاہیں گے۔ آپ اپنے شواہد کا چارٹ عدالت میں پیش کریں۔ ملزم کے خلاف جو کچھ بھی ہے لے آؤ۔ ہم ایک ہزار سے زیادہ صفحات دیکھ رہے ہیں۔ اس پر ایک ملزم کی جانب سے پیش ہونے والی سینئر ایڈووکیٹ ریبیکا جان نے کہا کہ ثبوت شامل کرنے کا طریقہ اتنا خراب ہے کہ ہر سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ پھر جسٹس نوین چاولہ نے کہا کہ ہم بھی مڈیئیٹر کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں۔ تب امت پرساد نے کہا کہ سازش بڑی ہے، اسی لیے وقت لگ رہا ہے۔ پھر ربیکا جان نے بتایا کہ ملزم پانچ سال سے زیر حراست ہے۔ اس کے باوجود دہلی پولیس کسی بھی الزام پر بریفنگ نہیں دے پائی ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ فروری 2020 میں دہلی فسادات میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔
---------------
ہندوستان سماچار / عبدالسلام صدیقی