مضمون
مہاراشٹر انتخابات 2024: مسلمانوں کی نمائندگی کا بدلتا منظرنامہ
ن۔جاوید ( بیڑ-اورنگ آباد)
مہاراشٹر کی قانون ساز اسمبلی کی تمام 288 نشستوں کے لیے انتخابات 2024 کے لیے رائے دیہی 20 نومبر اور 23 نومبر کو رائے شماری کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ اس بار 2024 کے انتخابات میں قانون ساز اسمبلی میں کتنے مسلمان پہنچے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھی ہے یا گھٹی ہے۔
نیشنل کمیشن کے ٹیکنیکل گروپ کی رپورٹ کے مطابق، یکم جولائی 2024 تک مہاراشٹر کی آبادی 12.77 کروڑ ہونے کا تخمینہ ہے۔ مہاراشٹر ہندوستان کی تیسری سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی یہاں کی تخمینہ آبادی کا تقریباً 12 فیصد بتائی جاتی ہے۔ لیکن ریاست کے سیاسی منظر نامے میں مسلمانوں کی موجودگی کا تناسب اس وقت باعث فکر اور ایک سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے مسلمانوں کی تعداد میں گزشتہ برسوں کے دوران بتدریج کمی دیکھی گئی ہے - 2019 کے آخری انتخابات میں یہ تعدار 288 ارکان اسمبلی میں سے صرف 10تھی۔
1999 میں، 12 مسلم ممبران اسمبلی منتخب ہوئے، لیکن 2004 میں یہ تعداد گر کر 11 رہ گئی۔ 2009 کے مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات میں صرف 10 مسلم ارکان اسمبلی منتخب ہوئے، جن میں سے پانچ کانگریس کے تھے۔ ان میں سے چھ کا تعلق ممبئی سے تھا، جو تھانے کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر کی مسلم آبادی کا ایک تہائی حصہ ہے۔ 2014 میں مسلم ارکان اسمبلی کی تعداد مزید کم ہوکر 9 رہ گئی، جو 2019 میں معمولی حد تک بڑھ کر 10 ہوگئی۔ قانون ساز اسمبلی میں ان کی گرتی ہوئی تعداد کا الزام بدلتے ہوئے سماجی حقائق پر لگایا جا رہا ہے جہاں اقلیتی برادری کے امیدواروں کو ووٹوں کی منتقلی مشکل ہو گئی ہے۔
اگرچہ بی جے پی نےاس انتخابات کے لیے کسی مسلم امیدوار کو نامزد نہیں کیا ہے، تاہم شیوسینا نے، وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت میں، وزیر عبدالستار کو اورنگ آباد (چھترپتی سمبھاج نگر) کے اپنے حلقہ سلوڑ سے دوبارہ نامزد کیا ہے۔ اور نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کی اتحادی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے جو مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں، ان میں نواب ملک (مانخورد شیواجی نگر)، ثنا ملک (انوشکتی نگر)، ذیشان صدیقی (باندرہ ایسٹ)، حسن مشرف (کاگل) اور نجیب ملا (ممبرا کلوا) کو موقع دیا گیا ہے۔
کانگریس، این سی پی (شرد پوار) اور شیو سینا) ادھو ٹھاکرے( پر مشتمل اپوزیشن مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے) اتحاد سے کانگریس نے میرا بھئیندر سے سید مظفر حسین، ملاڈ ویسٹ سے اسلم آر شیخ ، چاندیوالی سے محمد عارف نسیم خان ، ممبادیوی سے امین پٹیل ، مالیگاؤں سنٹرل سے اعجاز بیگ ، باندرہ ویسٹ سے آصف زکریا ، ناندیڑ شمالی سے عبدالستار عبدالغفور اور اکولہ ویسٹ سے ساجد خان منان خان کو امیدوار بنایا ہے، جبکہ اپوزیشن مہا شیو سینا) ادھو ٹھاکرے( نے ہارون خان کو اپنی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اورنگ آباد میں سماج وادی پارٹی سے ڈاکٹر عبدالغفار قاری انتخاب لڑ رہے ہیں ، ان کے علاو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی جانب سے اورنگ آباد کے سابق رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل ، پرکاش امبیڈکر کی پارٹی ونچت بہوجن اگھاڑی سے جاوید قریشی اور افسر خان، اور بطور آزاد امیدور محمد ہشمام عثمانی بھی میدان میں ہیں۔ اسی طرح مالیگاوں سے مفتی اسماعیل انتخابی میدان میں ہیں۔ نیز ممبئ کی کالینہ حلقہ انتخاب سےمولانا لقمان ندوی ، پرکاش امبیڑکر کے سیاسی محاز ونچت بہوجن اگھاڑی سے قسمت آزما رہے ہیں۔
اورنگ آباد مغربی حلقہ انتخاب میں جہاں مسلم رائے دہندگان کی بڑی اور قابل لحاظ تعداد ہے ،اور اگر وہ متحد ہو کر کسی ایک امیدوار کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو یہاں کی نشست پر مسلم امیدوار کی کامیابی کے روشن امکانات ہیں۔
تاہم، پارلیمانی الیکشن ہارنے کے بعد امتیاز کا اسمبلی کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ اورنگ آباد میں نہ صرف موضوع بحث بنا ہے، بلکہ انکی اپنی پارٹی ایم آئی ایم میں انتشار اور پھوٹ کا باعث بھی بن گیا ہے۔ برسوں سے ایم آئی ایم سے وابستہ رہنے والے اہم لیڈران اور ورکرس یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ ہر بار اور ہر جگہ امیتاز جلیل ہی کیوں؟ ببانگِ دہل پارٹی سے بغاوت پر اتر آئے ہیں اور وہ ڈاکٹر عبدالغفار قادری کی حمایت میں بیانات دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
مزید براں، ہندوستان کے مشہور عالم دین اور مسلم پرسنل لابوڈ کے رکن مولانا سجاد نعمانی نے مہارشٹر کے 288 امیدواروں میں سے 269 امیدواروں کو اپنی حمایت (اپنی ذاتی رائے کےبطور) کا اعلان کیا ہے اس میں صرف 23 مسلم امیدوار ہیں اور ڈاکٹر عبدالغفار قادری انکی فہرست میں شامل ہے۔واضح رہے کہ مولانا سجاد نعمانی نے اپنی حمایت کے لیے جو بنیاد قائم کی ہے وہ یہ ہے کہ ریاست مہاراشٹر میں فرقہ پرست طاقتون کو شکست دی جاسکے ۔ اسی کے تحت جس نشست سے جو امیدوار فرقہ پرست طاقتوں کو شکست دے سکتا ہے، اسے منتخب کیاجائے، چنانچہ اسی کے تحت انھوں نے پورے مہاراشٹر میں صرف 23 مسلم امیدواروں کا انتخاب کیا اور باقی جن دوسرے غیر مسلم امیدواروں تائید و حمایت کا اعلان کیا ان میں 170 مراٹھا اور او بی سی ، 53 پسماندہ طبقات اور 40دیگر امیدوار شامل ہیں۔ یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس کے لیے انھوں نے صرف کسی پارٹی مخصوص کی یا کسی اتحاد کی حمایت نہیں کی۔ انھوں نے بشمول آزاد امیدوار ، کئی پارٹیوں کے امیدواروں کو الگ الگ جگہ پرحمایت دی ہے، انکی فہرست میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور دوسری کئی پارٹیوں کے امیدوار بھی شامل ہیں۔
اورنگ آباد مغربی حلقہ جہاں سے جہاں ایک مسلم امیدوار باآسانی منتخب ہو سکتا ہے یہاں دو قدآور مسلم امیدوارں کےبیچ انتخابی جنگ نے اس امکان کو بڑی حد تک کم کر دیا ہے۔ گو کہ یہاں ڈاکٹر عبدالغفار قادری کو مولانا سجاد نعمانی کے ساتھ ساتھ اورنگ آباد شہر کے بااثر اور معزز علماء کا ساتھ حاصل ہے، تاہم، دوسری طرف امتیاز جلیل کو بھی علماء بورڈ(رجسٹرڈ) حمایت حاصل ہے۔علاوہ ازیں یہاں سے ونچت بہوجن اگھاڑی سے افسرخان بھی امیدوار ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر اب یہ 23 نومبر کو ہی پتہ چلے گا کہ مولانا سجاد نعمانی کی رائے کو مسلم رائےدہندگان نے بالخصوص اور دیگر سیکولر ووٹرس نے کتنی اہمیت دی ہے۔
ممبئی کے مانخورد شیواجی نگر اسمبلی حلقہ، جو ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں بھی دو پڑے مسلم قائدین اور دیرینہ حریف ابو عاصم اعظمی اور نواب ملک آمنے سامنے ہیں۔ اس سیٹ سے تین بار ایم ایل اے رہنے والے اعظمی کی نظر سماج وادی پارٹی کے ٹکٹ پر لگاتار چوتھی بار جیتنے پر ہے، جبکہ نواب ملک جبکہ نیشنلیسٹ کانگریس پارٹی( اجیت پوار) سے میدارن میں ہیں۔ ایک بات تو طئے شدہ ہے کہ اس بار اسمبلی میں ان میں سے کوئی ایک لیڈر نہں رہے گا۔یا پھر ان کے بیچ کی لڑائی میں کوئی تیسرا فریق بازی مارلے۔ اور مہاراشٹر کے مسلمان ان دو بڑے اور اہم قائدین کو اسمبلی میں نہ دیکھ پائیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس انتخاب میں جہاں ایک طرف مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے امیدوار ہیں، اسی طرح بعض صاف ستھرے اور باکردار امیدوار بھی ہیں۔ مہاراشٹرا اسمبلی انتخابات میں جہاں سیاسی شخصیات مختلف سیاسی پارٹیوں سے قسمت آزمائی کر رہی ہے وہیں مذہبی شخصیات بھی انتخابی دنگل میں میں اپنا زور لگا رہی ہیں ۔ان میں تین عالم دین بھی شامل ہے جو مختلف سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر چناو لڑ رہے ہیں ۔جن میں مالیگاوں سے مفتی اسماعیل قاسمی ، جو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی اور دیوبند سے فارغ تحصیل ہیں۔ مفتی محمد اسمٰعیل قاسمی دیوبند سے فارغ اور مالیگاؤں کی جامع مسجد کے خطیب و امام ہیں نیز لشکر والی عیدگاہ کے تا حیات امام اور دارالعلوم دیوبند کی شوریٰ کے رکن و رابطہ مدارس اسلامیہ مہاراشٹر کے صدر بھی ہیں۔ عیاں رہے کہ مالیگاوں سب سے زیادہ مسلم ووٹرس والا حلقہ ہے۔
اسی طرح ممبئ کی کالینہ حلقہ انتخاب سے لقمان ندوی ندوةالعماء سے حافظ اور عالم ہے وہ پرکاش امبیڑکر کے سیاسی محاز ونچت بہوجن اگھاڑی سے قسمت آزمائ کر رہے ہیں، اس سے قبل وہ ایم آئ ایم کے ترجمان تھے پارٹی چھوڑ کر وہ ونچت بہوجن اگھاڑی کے ٹکٹ سے چناو لڑ رہے ہیں۔اس علاقے میں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہے مولانا لقمان ندوی عالم ہونے کے ساتھ ساتھ پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری (ایم اے) رکھتے ہں ۔ان کے علاوہ مولانا رحمت اللہ امراوتی حلقے سے آزاد امیدوار ہے ، بتادیں کی یہاں مسلم ووٹ چالیس فیصد سے زائد ہیں۔
ہندوستھان سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / نثار احمد خان