غزہ کے لیے ناگزیر انروا پر پابندی لگانے کی صورت میں اسرائیل کو خود امداد کرنی چاہیے:یو این
اقوامِ متحدہ،30اکتوبر(ہ س)۔ اقوامِ متحدہ نے منگل کو اس بات پر زور دیا کہ اگر اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے والے نئے قوانین نافذ کرتا ہے تو بین الاقوامی ضوابط کے تحت اسرائیلی حکومت کو ان کی ضروریات پوری کرنا ہوں گی۔سکری
یو این غزہ


اقوامِ متحدہ،30اکتوبر(ہ س)۔

اقوامِ متحدہ نے منگل کو اس بات پر زور دیا کہ اگر اسرائیل اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے والے نئے قوانین نافذ کرتا ہے تو بین الاقوامی ضوابط کے تحت اسرائیلی حکومت کو ان کی ضروریات پوری کرنا ہوں گی۔سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایجنسی کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ کے دوران یہ ناگزیر رہی ہے اور اسرائیلی قانون سازی کا فلسطینی علاقوں میں انسانی صورتِ حال پر تباہ کن اثر ہو گا، یہ بات اقوامِ متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے بتائی۔

بچوں، صحت اور نقل مکانی کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایجنسیوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ انروا غزہ میں عالمی ادارے کی کارروائیوں کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ یہاں لوگ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران ہنگامی خوراک کی امداد پر انحصار کرتے ہیں جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور زیادہ تر علاقہ کھنڈرات میں بدل گیا ہے۔ دوجارک نے کہا، تمام حلقوں اور ممالک کی جانب سے انروا کی حمایت میں بیانات سے اقوامِ متحدہ کو خوشی ہوئی ہے اور اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں ہمیں مدد دینے کے لیے کسی بھی رکن ریاست کی کوششوں کی ہم بہت تعریف کریں گے۔اسرائیل نے غزہ میں موجود انروا عملے کے بعض ارکان پر سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اس نے عملے کے سینکڑوں افراد کے مزاحمت کاروں سے روابط کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ اسے ایجنسی مراکز کے نیچے یا ان کے اندر حماس کے فوجی اثاثہ جات ملے۔ اسرائیل نے پیر کو دو قوانین منظور کیے جو انروا کو اس کا کام جاری رکھنے سے روک سکتے ہیں جس نے اسے اقوامِ متحدہ کے 193 رکن ممالک میں تنہا کر دیا۔ حتیٰ کہ اس کے قریبی ترین اتحادی امریکہ نے کئی حکومتوں اور انسانی تنظیموں کے ساتھ مل کر اسرائیلی قانون سازی کی مخالفت کی۔ یہ قانون تین ماہ تک نافذ نہیں ہو گا۔

دوجارک نے بتایا کہ گوٹیرس نے منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کو ایک خط بھیجا جس میں ان کے خدشات اور بین الاقوامی قانون کے مسائل کا خاکہ پیش کیا۔

اقوامِ متحدہ کے ترجمان نے کہا، ایک قابض طاقت کے طور پر اسرائیل کو فلسطینیوں کی ضروریات بشمول خوراک، صحت اور تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ اور اگر اسرائیل ان ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ بشمول انروا اور دیگر انسانی ہمدردی کی ایجنسیوں کو امدادی سرگرمیوں کی اجازت دے اور انہیں سہولت فراہم کرے۔دوجارک نے کہا، اگر انروا کو کام بند کر دینا چاہیے - اور ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے - تو اسرائیل کو یہ خلا پ±ر کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے نیتن یاہو کے نام سیکریٹری جنرل کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا، دہشت گردی پر آنکھیں بند کرنے اور بعض معاملات میں دہشت گردی میں حصہ لینے پر انروا کی مذمت کرنے کے بجائے اقوامِ متحدہ اسرائیل کی مذمت کرتا ہے۔انہوں نے انروا کو اقوامِ متحدہ کے بھیس میں کام کرنے والے حماس کے بازو کے سوا کچھ نہیں قرار دیا اور ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ یہ غزہ کو انسانی امداد فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ڈینن نے کہا، اسرائیل بین الاقوامی قانون کے مطابق غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھے گا لیکن انروا اپنے دائرہ اختیار میں ناکام رہا ہے اور اب اس کام کے لیے مناسب انتخاب نہیں ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ترجمان طارق جساریوک نے کہا کہ انروا کے ہیلتھ ورکرز نے گذشتہ سال کے دوران چھے ملین سے زیادہ طبی مشورے فراہم کیے۔ انہوں نے حفاظتی ٹیکوں، بیماریوں کی نگرانی اور ناکافی غذائیت کے لیے سکریننگ کی پیشکش بھی کی ہے اور کوئی بھی ایجنسی بشمول عالمی ادارہ صحت انروا کے کام کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ترجمان جیریمی لارنس نے کہا، انروا کے بغیر غزہ کی زیادہ تر آبادی کو خوراک، پناہ گاہ، صحت اور تعلیم سمیت دیگر چیزوں کی فراہمی رک جائے گی۔اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بے گھر یا گھروں سے بھاگ جانے والے فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے 1949 میں انروا قائم کی تھی۔شرقِ اوسط کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے باقاعدہ اجلاس میں مقررین نے انروا کی حمایت کی اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام ارکان نے حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی جنگوں کی مذمت کی۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / Mohammad Khan


 rajesh pande