
اورنگ آباد ، 6 دسمبر (ہ س)۔ 5 دسمبر کی رات قلعہ ارک کے تاریخی پس منظر میں واقع عالمگیر ہال بیت الیتیم میں مسلم نمائندہ کونسل کے زیر اہتمام ایک اہم اور سنجیدہ نوعیت کا اجلاس منعقد ہوا۔ یہ محفل بابری مسجد کی شہادت کی یاد تازہ کرنے، مساجد کے تحفظ سے متعلق امور اور ملکی حالات کے پس منظر میں عدالتی فیصلوں کا جائزہ لینے کے لیے ترتیب دی گئی تھی۔ اجتماع رات آٹھ بجے شروع ہوا اور شرکاء کی بڑی تعداد نے اسے ایک بامقصد فکری نشست بنا دیا۔
پروگرام کا آغاز مولانا شفیق ملی کی تلاوتِ قرآنِ پاک سے ہوا ،بعد ازاں محمد عقبہ نے نعتِ رسولِ مقبول ﷺ پیش کی ۔ اجلاس کا مقصد امت کو درپیش چیلنجز، خصوصاً عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق عملی لائحہ عمل کو سمجھنا تھا۔
مسلم نمائندہ کونسل کے نائب صدر اور اسلامک ریسرچ سینٹر( آئی آر سی) کے بانی و صدر ایڈووکیٹ فیض سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ مساجد مسلمانوں کا اجتماعی ورثہ اور روحانی مرکز ہیں، جن کے تحفظ کے لیے بیداری، منظم کوشش اور آئینی جدوجہد ضروری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مساجد کے معاملات میں اصول کاغذات مکمل رکھنا اور اُمید پورٹل پر رجسٹریشن کرانا نہایت اہم ہے، تاکہ کسی بھی تنازع کی صورت میں قانونی حق محفوظ رہے۔
اس کے بعد مسلم نمائندہ کونسل کے صدر اور وحدت اسلامی کے کل ہند امیر ضیاء الدین صدیقی نے ’’تحفظِ مساجد (بابری مسجد کے تناظر میں)‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ مساجد صرف نماز کی جگہ نہیں بلکہ اخلاقی تربیت اور تہذیبی شناخت کے مراکز ہیں۔ انہوں نے عالمی معیار، اقوام متحدہ کی رپورٹس اور ملکی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بعض سرکاری اقدامات عوامی خوف کو بڑھاتے ہیں اور یہ رجحان ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ بابری مسجد کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’عدالت نے فیصلہ ضرور دیا، لیکن انصاف کسی بھی درجے میں مکمل نہیں ہوا۔‘‘
اختتام پر نثار دیشمکھ نے تمام مہمانان و شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ملک و ملت کی سلامتی کے لیے خصوصی دعا کی۔ نظامت کی ذمہ داری عبدالمعید حشر نے نہایت روانی اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔
ہندوستھان سماچار
--------------------
ہندوستان سماچار / جاوید این اے