
علی گڑھ, 6 دسمبر (ہ س)۔
بابری مسجد کی 33ویں برسی پرعلی گڑھ شہر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس الرٹ رہی، 6 دسمبرکی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے شہر کے حساس علاقوں میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے وہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبا کی جانب سے آرٹس فیکلٹی کے باہر بابری مسجد کے فیصلہ کو پڑھنے کا پوسٹر وائرل ہونے کے بعد صبح سے ہی پولیس اور پروکٹر ٹیم کے ذمہ داران موقع پر مستعد نظر آئے اور کسی طرح کی کوئی ایکٹویٹی نہیں ہونے کی وہیں طلبا کا الزام ہے کہ جمہوریت میں ہمیں اس عمل سے روکا جانا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے جو فیصلہ آیا ہے وہ ملک کی تاریخ ہے اور اس کو پڑھنے سے روکنا سمجھ سے پرے ہے۔
تفصیلات کے مطابق ڈپٹی پراکٹر پروفیسر حسن امام اور پروفیسر عفت اصغر اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر موجود تھے انھوں نے وضاحت کی کہ ایک پوسٹر وائرل ہوا تھا جس کے بعد ہم یہاں آئے ہیں پوسٹر کس نے وائر ل کیا یہ ابھی معلوم نہیں چل سکا ہے، پوسٹر میں میں کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے فیصلے کو پڑھیں گے،انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس طرح کے معاملات کو لیکر بہت حساس ہیں جب بھی اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش آتا ہے ہم بہت محتاط ہوجاتے ہیں۔ یہ پوسٹر شاید کچھ باہری لوگوں نے جاری کیا ہوگا،اسی لئے ہم جائے وقوعہ پر موجود ہیں جہاں کے لئے پوسٹ وائرل کیا گیا تھا۔ پولیس انتظامیہ بھی ہمارے ساتھ ہے۔وہیں طلبا علم محمد سیف، ابو معاذ و دیگر کا کہنا تھا کہ ہم لوگ جمع ہوئے تھے بابری مسجد کا فیصلہ پڑھ کر سنانا چاہتے تھے کافی تعداد میں طلباموجود تھے لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اور پولیس نے ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا،طلبا کہا کہنا تھا کہ جب ایک یونیورسٹی میں مسائل پر تبادلہ خیال نہیں کرنے دیا جائے گا تو پھر کہاں کرنے دینگے۔غورطلب ہے آج بابری مسجد کی شہادت کے 33 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن 6 دسمبر 1992 تاریخ میں ایک سیاہ بدنما داغ ہے جسے تا زندگی بھلایا نہیں جاسکتا، اس دن عدالت کے احکامات کو پامال کرتے ہوئے، پولیس انتظامیہ کی موجودگی میں دن کی روشنی میں تاریخی مسجد کو شدت پسندوں نے شہید کردیا تھا۔ جسکی وجہ سے 6 دسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔
---------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ