
غزہ،27دسمبر(ہ س)۔غزہ میں پچھلے اڑھائی ماہ سے جنگ بندی کے باوجود خوراک اور ادویات کے علاوہ ایندھن کی فراہمی بھی بلا روک ٹوک ممکن نہ ہونے کے باعث جمعہ کے روز غزہ میں کام کرنے والے ایک جنرل ہسپتال نے ایندھن نہ ملنے کی وجہ سے اپنی خدمات کو معطل کر دیا ہے۔بتایا گیا ہے کہ ایندھن کی عدم موجودگی میں ہسپتال کو چلانا ناممکن ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس ہسپتال کی بندش سے بھی ایک نیا انسانی بحران پیدا ہوگا۔
توقع کی جا رہی تھی کہ 10 اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ بندی کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری رک جائے گی اور خوراک، ادویات ور ایندھن کی سپلائی کو بلا روک ٹوک اسرائیل اجازت دے دے گا۔ لیکن تقریباً اڑھائی ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ امید پوری نہیں ہو سکی۔اسرائیلی فوج جب چاہتی ہے بمباری کرتی ہے اور انتہائی محدود مقدار میں غزہ آنے والی خوراک و امدادی سامان کو بھی روکنے کی پوزیشن میں ہے۔نصیرات ضلع میں قائم یہ ہسپتال تقریبا ساٹھ مریضوں کو ہمہ وقت علاج کی سہولت حاصل ہے جبکہ یومیہ اس ہسپتال سے ایک ہزار مریض اور زخمی علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں۔ہسپتال کے اعلان میں کہا گیا ہے اب صرف انتہائی ضروری شعبے ہی کام کر سکیں گے۔ ان میں ایمرجنسی یونٹ، میٹرنٹی اور بچوں کے شعبے شامل ہیں۔ہسپتال انتظامیہ نے مزید کہا یہ انتہائی ضروری یونٹ چلانے کے لیے بھی ہسپتال کو ایک چھوٹا جنریٹر کرائے پر لینا پڑا ہے۔یاد رہے عام حالات میں العودہ ہسپتال کو اپنی ضرورت کے لیے یومیہ ایک ہزار اسے 1200 لیٹر ڈیزل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ اسے آج کل صرف 800 لیٹر تک تیل مل رہا تھا۔ہسپتال کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ ہم مجبور ہوئے اور ہم نے عارضی طور پر ہسپتال میں تمام طبی سہولیات کو جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ہسپتال کے ذمہ دار نے مزید کہا وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا ایندھن دستیاب نہیں ہے کہ ہم ہسپتال چلاتے رہیں۔30 سالہ خطام عائدہ نے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں گردے میں درد کی وجہ سے کئی دن بعد ہسپتال میں علاج کی سہولت ملی تھی لیکن اب مجھے بتایا گیا ہے کہ بجلی کی بندش کی وجہ سے ہسپتال میں علاج جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ اس بے گھر کر دی گئی خاتون نے یہ بات 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہی۔اب انہوں نے مجھے گردے کی تکلیف سے بچنے کے لیے درد کی دوا دی ہے اور کہا ہے کہ اگر مسئلہ حل نہ ہو تو کسی اور ہسپتال چلے جانا۔عائدہ نے کہا ہماری زندگیوں سے ہر سہولت غائب ہوگئی ہے۔ حتیٰ کہ اب ہم انتہائی بنیادی طبی ضروریات اور علاج معالجے سے بھی محروم ہیں۔ہسپتال کے ذمہ دار نے ایک بار پھر مقامی و بین الاقوامی اداروں پر زور دیا کہ وہ ان معاملات میں مداخلت کریں اور ہسپتالوں کو بجلی و ایندھن کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
جنگ بندی کے باوجود غزہ کی پٹی پر انسانی بحران کی کئی شکلیں موجود ہیں اور لوگ ابھی بھی جنگ بندی کے باوجود خوف سے نکل سکے ہیں اور نہ بنیادی ضروریات اور سہولیات کے حوالے سے انہیں اطمینان مل سکا ہے۔جنگ بندی معاہدے کے مطابق یومیہ 600 امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونا تھا لیکن صرف 100 سے 300 ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیے جا رہے ہیں۔یہ بات اقوام متحدہ اور دیگر غیر سرکاری ادارے بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل امداد کی ترسیل کو بہتر بنانے میں مدد دے اور راہداریاں کھولے۔
اس صورتحال نے صحت کے شعبے کے لیے عزہ میں صحت کے شعبے کے لیے مسائل میں کمی نہیں آنے دی اور غزہ کا شعبہ صحت بدترین صورتحال سے جنگ کے دنوں کی طرح آج بھی دوچار ہے۔یاد رہے جنگ بندی کے بعد بھی بمباری کا سلسلہ جاری ہونے کی وجہ سے اب تک غزہ میں تقریباً 70942 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں اور اسرائیل جب چاہتا ہے بمباری کر دیتا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan