
تل ابیب،19دسمبر(ہ س)۔اسرائیلی مذاکرات کار اور الائنس فار ٹو اسٹیٹس کے عہدے دار جرشن بسکین نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی اہمیت اور غزہ معاہدے کی جانب پیش رفت کو تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاہدے کی مکمل تکمیل تک اس پر عمل درآمد کی نگرانی کرنا انتہائی ضروری ہے۔العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی استحکام فورس کا کردار مشکل ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ یہ فورس حماس کو غیر مسلح کرنے کی نگرانی کرے۔واضح رہے کہ ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 20 نکاتی امن منصوبہ اب تک کا سب سے مفصل منصوبہ ہے۔ اس کا آغاز جنگ بندی سے ہوتا ہے تاکہ مکمل طور پر جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کی جا سکے۔منصوبہ حتمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے، غزہ کی حکمرانی میں اس کا کوئی کردار نہ ہو اور اسرائیل غزہ کی پٹی سے مکمل انخلا عمل میں لائے۔ تاہم دونوں فریقوں نے تا حال اس کے تمام نکات پر مکمل اتفاق نہیں کیا ہے۔
یاد رہے کہ9 اکتوبر کو اسرائیل اور حماس نے ایک جزوی معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں ٹرمپ پلان کے ابتدائی نکات شامل تھے۔ ان میں اسرائیلی یرغمالیوں کا فلسطینی قیدیوں کے ساتھ تبادلہ، جنگ بندی، اسرائیلی فوج کا جزوی انخلا اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد میں اضافہ شامل تھا۔ٹرمپ کے اس منصوبے کی توثیق اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے ذریعے بھی کی گئی، جس نے غزہ میں استحکام کے لیے ایک عبوری گورننگ باڈی اور بین الاقوامی فورس کے قیام کی اجازت دی ہے۔توقع ہے کہ یہ بین الاقوامی فورس غزہ کے اندر امن و امان فراہم کرے گی، لیکن اس کی تشکیل، کردار اور مینڈیٹ سے متعلق معاملات ابھی زیرِ بحث ہیں۔ اس میں انڈونیشیا اور پاکستان ممکنہ طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تاہم اسرائیل چاہتا ہے کہ ایسی کوئی بھی فورس حماس کو غیر مسلح کرنے کی ذمہ داری سنبھالے، جبکہ بہت سے ممالک اس کٹھن کام کے لیے اپنی افواج بھیجنے میں زیادہ دل چسپی نہیں رکھتے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan