اردو ہمارے گھروں سے نکل چکی ہے ہمیں سنجیدگی کے غور وفکر کرنا ہوگا: محمد قمر عالم
علی گڑھ، 9 نومبر(ہ س)۔ اترپردیش اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن اور شمس مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی علی گڑھ کے زیر اہتمام آج ایم ٹیک انٹر کالج میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی یومِ پیدائش کے موقع پر ”عالمی یومِ اردو“پروگرام کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر
اردو ڈے تقریب


علی گڑھ، 9 نومبر(ہ س)۔

اترپردیش اردو ٹیچرس ایسوسی ایشن اور شمس مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی علی گڑھ کے زیر اہتمام آج ایم ٹیک انٹر کالج میں شاعر مشرق علامہ اقبال کی یومِ پیدائش کے موقع پر ”عالمی یومِ اردو“پروگرام کا انعقاد کیا گیا اس موقع پر مولانا آزاد کی یومِ پیدائش کی مناسبت سے یومِ تعلیم بھی منعقد ہوا۔مہمان خصوصی اترپردیش خواتین و اطفال کنٹرول بورڈ کے سابق چیئرمین محمد قمر عالم نے اردو کی موجودہ حالت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج اردو ہمارے گھروں سے نکل چکی ہے ہمیں سنجیدگی کے غور وفکر کرنا ہوگا کہ ہم اس زبان کی بقاء کے لئے کیا کررہے ہیں۔انھوں نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے تعلق سے کہا گیا کہ انکا کلام و انکی فکریں فی زمانہ معنویت کی حامل ہیں وہ وہ کسی ایک زبان یا کسی ایک قوم کے کے شاعر نہیں بلکہ عالمی شاعر ہیں۔ کنوینر پروگرام کنور نسیم شاہد نے کہا کہ اردو صرف ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک مزاج،تہذیب اور جذبات کا گہوارہ ہے انھوں نے کہا کہ ہمارا ”یوم اردو“ منانے کا مقصد یہی ہے کہ ہم نئی نسل کو اپنے بزرگوں اور انکی خدمات سے واقف کراسکیں،انھوں نے کہا کہ دنیا میں علامہ اقبال کو شاعر مشرق،ادیب،مفکر اور فلسفی کے طور پر پہچانا جاتا ہے اور ان کی پیدائش 9/نومبر کو ”یوم اردو“ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔وہ کسی ایک خطہ یا ملت کے شاعر نہیں تھے اور ایک آفاقی نظریہ رکھتے تھے۔

مہمانِ اعزازی ڈاکٹر مفتی زاہد علی خاں نے کہا کہ جہاں اردو کو میر، غالب، امیر خسرونے پروان چڑھایا وہیں پریم چند،آنند نرائن ملاّ،چکسبت،فراق گورکھپوری اور گلزار نے اس کی پرورش کی۔اس لئے اردو کو مسلمانوں یاکسی ایک ملک سے وابستہ کرنا مناسب نہیں ہے۔غازیہ آباد سے تشریف لائے معروف سماجی کارکن یحیٰ قریشی نے اردو کے تعلق سے کہا کہ اقبال کو کسی ایک مذہب یا ایک زبان کا شاعر کہنا انکے ساتھ ناانصافی ہوگی آج ہمیں انکے نظریہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے،انھوں نے کہا کہ اردو کی ترقی کے لئے ہمہ جہت کوششیں کی جانی چاہیے تب ہی ہم اس کو باقی رکھ سکیں گے۔ایم ٹیک انٹر کالج کے ذمہ داراور میزبان پروگرام نظام الدین نے کہا کہ ملک کی آزادی میں اردو کا بڑا حصہ رہا ہے۔”انقلاب زندہ آباد“ کا نعررہ سب سے پہلے حسرت جے پوری نے ہی دیا تھا۔مشہور شاعر اور مصنف گوپی چند نارنگ کا ماننا ہے کہ مغلیہ سلطنت میں ہندوستان کو تین حسین تحفہ دئے۔ان میں ایک تاج محل، دوسرے غالب اور تیسری اردو زبان ہے۔اس لئے اگر اردو کو زبان کا تاج محل کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔کنور نسیم وارث نے کہا کہ اقبال ایک بہت ہی عمدہ شاعر تھے انکے یہاں جو فکر ملتی ہے وہ آج کے وقت میں بہت اہمیت کی حامل ہے انھوں نے قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارہ کا پیغام اس وقت دیا تھا جب ہم اس کا تصور بھی نہیں کررہے تھے،جامعہ اردو کے شیخ الجامعہ مصائد قدوائی نے کہا کہ اقبال کے یہاں حب الوطنی کا جو پیغام ہمیں ملتا ہے اسے آج سبھی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اس موقع دیگر مقررین نے بھی خطاب کرتے ہوئے اردو کی موجودہ صورت حال پر اظہارِ خیال کیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر محمد وصی بیگ نے انجام دیتے ہوئے علامہ اقبال کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔تنظیم کے ذریعہ کرائے گئے اردو مقابلہ میں علی گڑھ کے مختلف اسکولوں کے طلباء نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس میں زینب انٹر نیشنل اسکول،مینگو انٹر نیشنل،مدرسہ چاچا نہرو،مدرسہ فیضان غوثیہ،البرکات کے نام قابل ذکر ہیں۔اس موقع پر بڑی تعداد میں محبانِ اردو اور شہر و یونیورسٹی کے معززین موجود رہے۔ اردو کی خدمات ادا کرنے والی شخصیات صحافی سماجی کارکن اور دیگر حضرات کو اعزازات سے سرفراز کیا گیا۔

ہندوستھان سماچار

ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ


 rajesh pande