
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ عربی میں مقالاتِ شیروانی کی پُروقار رسمِ اجرا
علی گڑھ، 4 نومبر (ہ س)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں آج ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں شعبہ میں ہوئے گذشتہ دنوں حبیب الرحمن خاں شروانی کی حیات و خدمات پر ہوئے سیمینار کے مقالات کے مجموعے”مقالات شروانی“ کی رسمِ اجرا کی گئی۔ اس تقریب کی صدارت پدم شری پروفیسرحکیم سید ظل الرحمن نے جبکہ پروفیسر مدیح الرحمٰن شیرونی کی سرپرستی میں یہ تقریب منعقد ہوئی جس میں معروف محقق اور عالم دین، مولانا حبیب الرحمٰن خان شیرونی کی علمی خدمات پر مقررین نے روشنی ڈالی۔
دہلی یونیورسٹی سے تشریف لائے پروفیسر محمد نعمان خان نے کہا کہ مولانا حبیب الرحمن خان شیرونی کی شخصیت نہ صرف علمی اعتبار سے عظیم تھی بلکہ ان کی زندگی کا مقصد بھی علم کی ترویج اور مسلمانوں کی فلاح تھا۔ ان کی محنت اور لگن نے عربی ادب اور اسلامی تاریخ کو ایک نئی روشنی دی۔ ان کی تصنیفات، خاص طور پر عربی اور اردو میں، آج بھی اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں کہ وہ اپنے وقت کے بڑے محققین میں سے تھے۔مولانا شیرونی کا کتب خانہ اور ان کے تحقیقی مضامین جو انہوں نے مختلف علمی اداروں میں پیش کیے، وہ ان کے ذوقِ علم کی گہرائی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کی نوعیت نے عربی ادب کی تاریخ کو ایک نیا رخ دیا اور ان کے کام نے کئی نسلوں کو متحرک کیا۔ ان کا علمی ورثہ آج بھی ہمارے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے، جسے زندہ رکھنا اور اس سے استفادہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
جواہرلعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر محمد قطب الدین نے کہا کہ مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی کی شخصیت علم و تحقیق کے میدان میں ایک روشن ستارے کی مانند تھی، ان کی زندگی اور خدمات نے نہ صرف عربی و اردو ادب کو نئی جہت دی بلکہ ہندوستان کے علمی و تحقیقی مراکز میں بھی ایک نئی توانائی کا اضافہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا کا ذاتی کتب خانہ، جو کہ نادر کتابوں اور مخطوطات سے بھرپور تھا، اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کس قدر محنت اور لگن سے علم کو جمع کیا اور اس کا محفوظ کیا۔ مولانا شیروانی کی علمی خدمات کا دائرہ وسیع تھا اور انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنی وابستگی کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا کام اور ان کے نظریات آج بھی ہمیں اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہم اپنے علم و ادب کو نئی نسل تک منتقل کریں تاکہ ان کی فکری میراث کا تحفظ ہو سکے۔
ندوۃ العلماء سے تشریف لائے مولانا ابو سبحان روح القدس ندوی نے کہا کہ مولانا حبیب الرحمن خان شیرونی کی زندگی کا مقصد صرف علم کا حصول نہیں تھا بلکہ انہوں نے اس علم کو دوسروں تک پہنچانے کا عزم کیا۔ ان کا علم اور ان کے افکار ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک روشنی کی مانند تھے اور ان کی علمی خدمات نے عربی، اردو اور فارسی کے علوم کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی تحریریں اور مقالات ان کے علم و حکمت کا گہرا عکس پیش کرتے ہیں۔ مولانا شیروانی کی سیرت اور ان کی تعلیمی نظریات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ علم کو فقط اکٹھا کرنا کافی نہیں بلکہ اس علم کو معاشرے میں منتقل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی، رفاہی کاموں میں حصہ لیا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کئی منصوبوں پر کام کیا۔ ان کی یہ علمی اور فلاحی خدمات آج بھی ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔
غورطلب ہے کہ مذکورہ مجموعہ صدر شعبہ عربی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پروفیسر ایم۔ ثناء اللہ ندوی اور نوجوان اسکالر ڈاکٹر فخرِ عالم ندوی کی ادارت میں شائع کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں شیروانی سیمینار کے مختلف مقالات شامل ہیں، جن میں پروفیسر شیروانیؒ کی علمی خدمات اور ان کے تحقیقی کام پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ یہ سیمینار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی کی ایک اہم علمی کاوش تھی، جس کے ذریعے پروفیسر شیروانیؒ کی علمی وراثت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ڈاکٹر فخرعالم ندوی نے مولانا حبیب الرحمٰن خان شیرونی کی زندگی اور ان کی علمی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے مولانا کی شخصیت کو ایک رہنمائی کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ ان کی محنت اور لگن نے عربی زبان و ادب کی تحقیق میں ایک نیا معیار قائم کیا۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی زندگی کی کہانی نہ صرف تحقیق کے میدان میں کامیابی کی علامت ہے بلکہ ان کی خدمات نے اردو اور عربی زبانوں میں رابطہ قائم کرنے کا بھی کام کیا۔
پروفیسر مدیح الرحمن شیروانی نے کہا کہ آج جو بھی تجاویز آئی ہیں ان پر عمل کیا جائے گا اور ہماری جو کوششیں تھیں وہ اب منظر عام پر آرہی ہیں اس دن کا ہم سب بے صبری سے انتظار تھا۔آخر میں شعبہ عربی کے چیئرمین پروفیسر ایم۔ ثناء اللہ ندوی نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس بات کا عزم ظاہر کیا کہ شعبہ عربی کی جانب سے مزید اس نوعیت کی علمی محافل کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ عربی زبان و ادب کی اہمیت اور مولانا حبیب الرحمٰن خان شیرونی جیسے بزرگوں کی خدمات کو نئی نسل تک پہنچایا جا سکے۔انھوں نے کہا کہ مولانا شیروانی کی زندگی اور کام صرف علمی تحقیق تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کی تعلیمی خدمات، ادارہ سازی اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے ان کا کردار بھی نہایت اہم تھا۔ ان کے تحقیقی کام اور فکری نظریات آج بھی ہمارے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہیں، جسے نہ صرف یاد رکھا جانا چاہیے بلکہ اس سے استفادہ بھی کیا جانا چاہیے۔تقریب میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔۔
ہندوستھان سماچار
--------------
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ