غزہ،08اکتوبر(ہ س)۔حماس کے سینئر رہنما اور مذاکراتی وفد کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ تحریک غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے تیار ہے، مگر وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ضامن ممالک سے ٹھوس ضمانتیں چاہتی ہے تاکہ یہ جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔الحیہ نے منگل کے روز مصر میں ”القاہرہ“ نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے اسرائیلی قبضے کو آزما لیا ہے، اس پر ایک لمحے کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل نے اپنی تاریخ میں کبھی وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔اس لیے ہم ٹرمپ اور دیگر ضامن ممالک سے حقیقی ضمانتیں چاہتے ہیں۔ ہم مثبت جذبے کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ حماس کا وفد شرم الشیخ میں ذمہ دارانہ اور سنجیدہ مذاکرات کے لیے آیا ہے، تاکہ غزہ کے عوام پر مسلط جنگ کو روکا جا سکے۔خلیل الحیہ نے کہا کہ اسرائیل دو برس سے غزہ میں اندھی جنگ مسلط کیے ہوئے ہے۔ ہم یہاں اپنے عوام کی امن، استحکام، ریاست کے قیام اور حقِ خودارادیت کی امیدیں لے کر آئے ہیں۔
انہوں نے عرب اور اسلامی ممالک کی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان کوششوں کو بھی سراہا جن کا مقصد جنگ کا مستقل خاتمہ ہے۔الحیہ کے مطابق مذاکرات میں حماس کا بنیادی ہدف جنگ کا اختتام اور قیدیوں کے تبادلے پر معاہدہ ہے۔ہم اپنی تمام ذمہ داریاں نبھانے کو تیار ہیں، لیکن اسرائیل قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ قابض طاقت اپنے وعدوں سے پھر رہی ہے، اس لیے ہم بین الاقوامی سطح پر ایسی ضمانتوں کے خواہاں ہیں جو اس جارحیت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ یقینی بنائیں۔منگل کو ہی حماس کے ترجمان فوزی برہوم نے واضح کیا کہ تحریک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کی بنیاد پر جنگ بندی معاہدے کی خواہاں ہے، تاہم اس کی کچھ شرائط باقی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مصر میں جاری بالواسطہ مذاکرات طویل اور پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔برہوم نے کہا کہ حماس کا وفد مصر میں تمام رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایک ایسا معاہدہ طے پا سکے جو ہمارے عوام کی امنگوں پر پورا اترے۔انہوں نے کہاکہ ہم ایسے معاہدے کے خواہاں ہیں جو مکمل فائر بندی اور اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی ضمانت دے۔ تاہم اسرائیل ان دونوں شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے، جب کہ وہ حماس سے اسلحہ ترک کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جسے حماس نے سختی سے مسترد کر دیا ہے۔
برہوم نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تعمیر نو کا عمل فوری طور پر شروع ہو اور یہ کام ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹ اتھارٹی کی نگرانی میں انجام پائے۔اسی دوران فلسطینی تنظیموں کے ایک اتحاد جس میں حماس بھی شامل ہے نے بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام کو غیر مسلح کرنے کی کوئی بات دراصل صہیونی ریاست کے وجود اور اس کے جرائم کو قانونی جواز دینے کی کوشش ہے۔ ہمارا ہتھیار ہماری آزادی کی علامت ہے، اور فلسطین صرف مزاحمت سے آزاد ہو گا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے تاحال شرم الشیخ مذاکرات کی پیشرفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں توجہ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے انتظامات پر مرکوز ہے، تاہم قطر جو امریکہ اور مصر کے ساتھ ثالثی میں شامل ہے کے مطابق متعدد تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں، لہٰذا کسی فوری معاہدے کا امکان کم ہے۔اسی دوران اسرائیل نے غزہ پر فضائی، زمینی اور بحری حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے اس کی عالمی سطح پر تنہائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan