واشنگٹن،07اکتوبر(ہ س)۔ایک نئی دستاویز سے انکشاف ہوا ہے کہ ایف بی آئی (ایف بی آئی) نے سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دور میں 9 ریپبلکن قانون سازوں کے فون ریکارڈز حاصل کیے، جن میں موجودہ سینیٹ کے 8 ارکان شامل ہیں۔ یہ اقدام آرکٹک فراسٹ نامی ا±س تفتیش کے تحت کیا گیا جو 2020 کی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے الزامات سے متعلق تھی۔اس آپریشن کی تفصیلات والی دستاویز حال ہی میں کانگریس کو فراہم کی گئی، جو سینیٹر چَک گراسلی منظرِ عام پر لائے۔ انھوں نے اسے واٹرگیٹ سے بھی بڑا سیاسی اسکینڈل قرار دیتے ہوئے کہا کہ بائیڈن دور میں وفاقی اداروں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انھوں نے اٹارنی جنرل اور ایف بی آئی کے سربراہ سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
دستاویز کے مطابق تفتیش اپریل 2022 میں شروع ہوئی اور اسی سال کے آخر میں اسپیشل کونسل جیک اسمتھ نے نگرانی سنبھالی۔ تفتیش کا محور سابق صدر اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی وہ کوششیں تھیں جن کے ذریعے وہ انتخابی نتائج کو چیلنج کرنا چاہتے تھے۔ ان میں متبادل مندوبین کی فہرستیں جمع کرانا بھی شامل تھا۔بعد ازاں27 ستمبر 2023 کی دستاویز کے مطابق ایف بی آئی نے ابتدائی طور پر محدود ٹیلی فون ریکارڈز کا تجزیہ کیا۔ جن نمایاں سینیٹروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں لنڈسی گراہم، بل ہیگریٹی، جوش ہاو¿لی، ڈین سولیوان، ٹومی ٹوبر ویل، رون جانسن، سنتھیا لومِس اور مارشا بلیک برن شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایوان نمائندگان کے رکن مائیک کیلی بھی فہرست میں تھے۔سینیٹر رون جانسن کے مطابق یہ دستاویز موجودہ ایف بی آئی ڈائریکٹر کیش پٹیل کی ٹیم نے دریافت کی۔ متاثرہ قانون سازوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واحد قدرِ مشترک بات یہ ہے کہ وہ سب ریپبلکن ہیں۔ پٹیل نے وضاحت کی کہ ایف بی آئی نے کالیں سنی نہیں بلکہ صرف نمبروں اور وقت کی معلومات اکٹھا کیں ... اور اسے سیاسی مقاصد کے لیے طاقت کا غلط استعمال قرار دیا۔
گراسلی نے اعلان کیا کہ کانگریس اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے گی اور جیک اسمتھ سمیت سابق ایف بی آئی سربراہ کو طلب کیا جا سکتا ہے۔ قبل ازیں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا تھا کہ تفتیش کے دوران ٹرمپ اور سابق نائب صدر مائیک پنس کے فون ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل کی گئی تھی، جبکہ مجموعی طور پر 92 ریپبلکن شخصیات یا گروپ اس دائرے میں آئے۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / Mohammad Khan