
نئی دہلی، 31 اکتوبر (ہ س)۔ دہلی فسادات کی منصوبہ بندی کے ملزم عمر خالد نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی عرضی کی سماعت کے دوران کہا کہ انہیں تشدد سے جوڑنے والا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے اور ان کے خلاف سازش کے الزامات پوری طرح سے بے بنیاد ہیں۔ جسٹس اروند کمار کی سربراہی والی بنچ نے معاملے کی اگلی سماعت 3 نومبر کو کرنے کا حکم دیا۔
عمر خالد کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ استغاثہ ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمر خالد کے پاس سے نہ تو کوئی رقم یا اسلحہ برآمد ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت جو انہیں فسادات سے جوڑتا ہو۔ سبل نے کہا کہ 751 ایف آئی آر ہیں اور وہ صرف ایک میں ملزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ کوئی سازش تھی تو یہ حیران کن ہے۔ جن تاریخوں میں فسادات ہوئے عمر خالد دہلی میں تھا ہی نہیں ۔ سبل نے مزید کہا کہ کسی گواہ کے بیان میں خالد کو کسی پرتشدد واقعے سے نہیں جوڑا گیاہے۔
سبل نے استدلال کیا کہ عمر خالد کو عدالتی مساوات کی بنیاد پر ضمانت دی جانی چاہیے، جیسا کہ اس کیس کے دیگر ملزمان، نتاشا نروال، دیوانگن کلیتا، اور آصف اقبال تنہا کو 2021 میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ نے جس امراوتی تقریر کو اشتعال انگیز بتایا تھا، وہ دراصل گاندھیائی اصولوں پر مبنی عوامی تقریر تھی، جو کہ یوٹیوب پر اب بھی دستیاب ہے۔
اس معاملے میں دوسری ملزمہ گلفشا فاطمہ کی نمائندگی کر رہے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ وہ اپریل 2020، یعنی پانچ سال اور پانچ ماہ سے جیل میں ہے، لیکن انہیں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مرکزی چارج شیٹ ستمبر 2020 میں داخل ہو چکی تھی، لیکن استغاثہ ہر سال سپلیمنٹری چارج شیٹ داخل کرکے سالانہ رسم ادائیگی کر رہا ہے۔
سنگھوی نے کہا کہ فاطمہ کے خلاف صرف یہ الزام ہے کہ اس نے واٹس ایپ گروپ بنایا تھا تاکہ حمایت حاصل کی جا سکے۔ سماعت کے دوران ملزم شرجیل امام کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل سدھارتھ دوے نے کہا کہ پولیس کو تفتیش مکمل کرنے میں تین سال لگے جب کہ شرجیل پانچ سال سے جیل میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرجیل کی تقاریر فسادات سے تقریباً دو ماہ قبل دی گئی تھیں۔ اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے کہ شرجیل امام نے تشدد پر اکسایا۔
دہلی پولیس نے دہلی فسادات میں تشدد بھڑکانے کی سازش کرنے والے ملزمان کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان نے ملک کی سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کی ملک گیر سازش رچی تھی۔ دہلی پولیس نے کہا کہ بین الاقوامی میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر امریکی صدر ٹرمپ کے دورے کے دوران احتجاج کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان مظاہروں کا مقصد شہریت ترمیمی قانون کے بارے میں ابہام پیدا کرنا تھا اور اسے مسلم مخالف ہونے کا دعویٰ کیا گیا ۔
دہلی پولیس نے ملزمین کی ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یو اے پی اے ملزمین کے لیے جیل ہی قانون ہے، ضمانت نہیں۔ دہلی پولیس نے کہا کہ ٹرائل میں تاخیر کے لیے بنیادی طور پر ملزم خود ذمہ دار ہیں۔ دہلی پولیس نے کہا کہ ان مقدمات میں صرف 155 گواہ ہیں، 900 نہیں۔
عدالت نے 22 ستمبر کو ضمانت کی درخواستوں پر نوٹس جاری کیا تھا۔ تمام ملزمان نے ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کرنے کے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا ہے۔ 2 ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات کی سازش معاملے میں عمر خالد، شرجیل امام، اطہر خان، عبدالخالد سیفی، محمد سلیم خان، شفا الرحمان، میران حیدر، گلفشہ فاطمہ اور شاداب احمد کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں۔
ہندوستھان سماچار
ہندوستان سماچار / محمد شہزاد