
علی گڑھ، 29 اکتوبر (ہ س)۔
سماجی ہم آہنگی اور جامعیت میں سردار پٹیل کامستحکم یقین تھا انکی سیاسی دانشمندی اور وژن کی معنویت آج بھی قائم ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شعبہ دینیات کے استاد ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی نے کیا وہ آج معروف سیاسی رہنما سردار ولبھ بھائی پٹیل کی حیات و خدمات پر منعقد مذاکرہ سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے مزید کہا کہ سردار پٹیل نے کہا تھا کہ مذہب کے راستے پر چلو سچائی اور انصاف کا راستہ خود بخود مل جائے گاکیونکہ یہی سب کے لیے سیدھا راستہ ہے۔یہ الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہندوستان کے سماجی تانے بانے میں انصاف، باہمی احترام اور امن کو برقرار رکھنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔انھوں نے کہا کہ مرکزی قیادت نے انکی پیدائش کو یوم اتحادکے طور پر منا نے کاعزم کیا ہے جوہر شہری کو قومی اتحاد سے وابستگی کی یاد دلائے گا،انھوں نے کہا کہ سردار پٹیل نے ہندوستان کے ثقافتی تنوع کوقائم رکھنے زبان، علاقے اور مذہب کے درمیان رشتوں کو مضبوط کرنے پرہمیشہ زور دیا تھاآج جب ہندوستان علاقائی عدم مساوات، سماجی تقسیم اور نظریاتی اختلافات جیسے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے، اتحاد کا پیغام اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔یہ محض ایک رسمی جشن نہیں ہے بلکہ یہ قومی اتحاد اور اجتماعی ترقی کے جذبے کو زندہ کرتا ہے۔
ڈاکٹر ریحان نے کہا کہ جب ہندوستان نے 1947 میں آزادی حاصل کی تو ملک کو 560 سے زیادہ شاہی ریاستوں کا ایک پیچیدہ تانہ بانہ وراثت میں ملا - ہر ایک کی اپنی خود مختاری اور الگ وفاداریاں تھیں۔ سردار پٹیل نے ان شاہی ریاستوں کو انڈین یونین میں ضم کرنے کے چیلنج کو قبول کیایہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے بے مثال سفارت کاری، ہمت اور عزم کی ضرورت تھی اور انھوں نے وہ کام کردکھایا جس کے تحت 560 سے زیادہ شاہی ریاستوں کو ایک کیاجس سے ایکخودمختار قوم وجود میں آئی،انکا کہنا تھا کہ قومی یکجہتی صرف ان کی میراث کو خراج عقیدت نہیں ہے بلکہ یہ تنوع میں اتحاد کے لیے ہندوستان کے مستقل عزم کا اعادہ ہے۔انھوں نیسر دار پٹیل کے الفاظ دہرائے جو آج بھی کانوں میں گونجتے ہیں ”میری تو بس یہی خواہش ہے کہ ہندوستان ایکملک بنیجس میں کوئی بھوکا نہ رہے، کسی کی آنکھوں میں آنسو نہ آئے“۔
ہندوستان سماچار / سید کامران علی گڑھ